ETV Bharat / state

پانچ اگست کے بعد کچھ نہیں بدلا، لوگ مصائب کے پہاڑ تلے دب گئے - kashmir

ریاست جموں و کشمیر میں 5 اگست کے بعد کی پیدا شُدہ صورتحال سے لوگوں کو کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

پانچ اگست کے بعد کچھ نہیں بدلا۔لوگ مصائب کے پہاڑ تلے دب گئے
پانچ اگست کے بعد کچھ نہیں بدلا۔لوگ مصائب کے پہاڑ تلے دب گئے
author img

By

Published : Aug 4, 2020, 8:09 PM IST

لوگوں میں ریاست کو دو حصّوں میں تقسیم کرنے اور خصوصی پوزیشن کو ختم کرنے کے حکومتی فیصلے پر شدید ناراضگی تا حال پائی جا رہی ہے۔

پانچ اگست کے بعد کچھ نہیں بدلا۔لوگ مصائب کے پہاڑ تلے دب گئے

خطہ چناب میں کچھ لوگ اس دن کو 'یوم سیاہ' قرار دے رہے ہیں ۔

لوگوں نے بتایا کہ پانچ اگست 2019 تک ریاست جموں و کشمیر کا الگ قانون اور الگ پرچم تھا جو یہاں کے باشندوں کو دیگر ریاستوں کے مقابلے میں الگ شناخت فراہم کرتا تھا اور کوئی بھی غیر ریاستی باشندہ یہاں کا رہائشی نہیں بن سکتا تھا۔

خطہ چناب کی بیشتر آبادی ایک سال گزر جانے کے بعد بھی اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ ریاست کو حاصل خصوصی درجہ ختم کر دیا گیا ہے۔

حکومت کے اس فیصلے کو وہ غیر منصفانہ، غیر قانونی اور جمہوریت کی توہین قرار دے رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کے اس فیصلے سے متفق نہیں ہیں ۔

ای ٹی وی بھارت نے ڈوڈہ میں مختلف قسم کے تاجر پیشہ افراد سے بات کی، جس میں لوگوں نے بتایا کہ 5 اگست کے بعد خطہ چناب کے تینوں اضلاع میں لوگ تعمیر وترقی سے محروم ہو گئے ہیں اس میں سب سے زیادہ جو طبقہ متاثر ہوا ہے وہ تاجر برادری ہے ۔

پانچ اگست کی شب پہلے اچانک جموں و کشمیر کے عوام کو گھروں میں قید کر دیا گیا۔جو جہاں تھا وہیں رہ گیا اُن ایام کی بات کوئی نہیں کرنا چاہتا ہے اور ناہی اُن بندشوں میں دوبارہ خود کو ڈالنا چاہتا ہے ۔ڈوڈہ میں لوگوں کا پانچ اگست کے فیصلے کے بلکل خلاف رد عمل ہے ۔

اس میں ہر عمر کا انسان شامل ہے۔ڈوڈہ میں ہوٹل چلانے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ اُن کا کام مکمل طور ٹھپ ہو گیا ہے پہلے ہوٹلوں کے باہر لوگوں کی بھاری بھیڑ جمع رہتی تھی لیکن آج گاہک کا انتظار کرنا پڑتا ہے ۔

اب بازار میں وہ چہل پہل رونقیں کہیں دور دور تک نظر نہیں آ تی ہیں۔اسکولوں کے صحن ابھی ننھے بچّوں کے آمد کے منتظر ہیں ۔ضلع ڈوڈہ کے قصّبہ جات میں بیشتر تجارتی مراکز چلانے والے گاؤں سے آتے ہیں لیکن پانچ اگست کے بعد وہ مالی خسارے کا شکار ہو گئے ہیں ۔

کئی لوگوں نے اپنا کاروبار ہی ترک کر دیا۔اگر چہ لوگ گھروں سے باہر نکلتے ہیں لیکن وہ کچھ بھی کہنے کے لئے راضی نہیں ہیں۔

ڈوڈہ میں اکثریتی و اقلیتی طبقہ کے لوگوں میں ریاست کو مرکز زیر انتظام علاقہ بنانے اور لداخ خطہ کو الگ کرنے کے خلاف سخت ناراضگی پائی جاتی ہے

لیکن وہ کیمرے کے سامنے بولنے کے لئے بلکل تیار نہیں ہیں۔پانچ اگست کے صبح سے ہی سیاسی سماجی انجمنوں سے وابستہ افراد کو جیل خانوں میں یا گھروں میں ہی قید کیا گیا جس کے بعد لوگوں میں خوف و ہراس پیدا ہو گیا جو حکومت کے خلاف بولنے لگا تو اُس کو پی.ایس.اے کے تحت پابند سلاسل کیا گیا تھا ۔

یہی وجہ ہے کہ آج کوئی بھی بولنے کے لئے تیار نہیں ہے جس کے پیچھے صرف پانچ اگست کے بعد حکومت کی طرف عوام کے خلاف اختیار شُدہ رویہ ایک بڑی وجہ ہے ۔انٹرنیٹ کے ذریعے چلنے والی دکانیں اب بند ہونے کے دہانے پر کھڑی ہیں اُن کا کہنا ہے کہ وہ بے روزگاری کی بھٹی میں جھلس رہے ہیں لیکن کوئی پُرسان حال نہیں ہے ۔

پانچ اگست کی شب جب انٹرنیٹ سروس پر قدغن لگایا گیا۔ اُسی روز سے وہ بیکار ہو گئے ہیں ۔کیونکہ اُن کا کام آن لائن درخواستیں جمع کرنے و دیگر انٹرنیٹ کے ذریعے ہونے والے کام پر ہی منحصر تھا جب انٹرنیٹ سہولیت دستیاب نہیں ہیں پھر وہ کیسے اس پیشہ کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔

اس پیشہ سے وابستہ ہزاروں کی تعداد میں نوجوان بے روزگار ہو گئے ہیں ۔یہی حال دیہات کا بھی ہے جہاں عوام کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی ہے آفیسر شاہی عروج پر ہے لوگ فاقہ کشی کا شکار ہو رہے ہیں ۔

لوگوں میں ڈومیسائل قانون لاگؤ ہونے کے بعد کئی طرح کے خدشات پائے جا رہے ہیں ۔کم پڑھا لکھا ہوا طبقہ اس بات سے پریشان ہے کہ اب غیر ریاستی باشندے اُن کی زمینوں پر قبضہ جمانے والے ہیں ، لیکن نوجوان طبقہ میں ڈومیسائل کے بعد زیادہ پریشان ہوا ہے

بائٹ

اور ممکنہ بے روزگاری ،جرائم کی شرح میں اضافہ ہونے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔

چائے والے (ٹی.سٹال) چلانے والے شدید طور پر متاثر ہوئے ہیں اُن کا کہنا ہے کہ اب وہ دِن گزار رہے ہیں ورنہ کام برائے نام ہے دکان کا کرایہ بھی مشکل سے پورا ہو رہا ہے ۔

خطہ چناب میں کُل ملاکر تمام لوگوں کا ایک جیسا ہی کہنا ہے جس میں صرف بی.جے.پی سے وابستہ عہدیدار اور حمایتی مجبوری میں حکومتی فیصلے کی حمایت کر رہے ہیں اُن کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کے ہر فیصلے کے ساتھ کھڑے ہیں جیسے حکومت چلائے گی ویسے چلنا پڑے گا ۔لیکن کیمرے کے سامنے وہ بھی بولنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

لوگوں میں ریاست کو دو حصّوں میں تقسیم کرنے اور خصوصی پوزیشن کو ختم کرنے کے حکومتی فیصلے پر شدید ناراضگی تا حال پائی جا رہی ہے۔

پانچ اگست کے بعد کچھ نہیں بدلا۔لوگ مصائب کے پہاڑ تلے دب گئے

خطہ چناب میں کچھ لوگ اس دن کو 'یوم سیاہ' قرار دے رہے ہیں ۔

لوگوں نے بتایا کہ پانچ اگست 2019 تک ریاست جموں و کشمیر کا الگ قانون اور الگ پرچم تھا جو یہاں کے باشندوں کو دیگر ریاستوں کے مقابلے میں الگ شناخت فراہم کرتا تھا اور کوئی بھی غیر ریاستی باشندہ یہاں کا رہائشی نہیں بن سکتا تھا۔

خطہ چناب کی بیشتر آبادی ایک سال گزر جانے کے بعد بھی اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ ریاست کو حاصل خصوصی درجہ ختم کر دیا گیا ہے۔

حکومت کے اس فیصلے کو وہ غیر منصفانہ، غیر قانونی اور جمہوریت کی توہین قرار دے رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کے اس فیصلے سے متفق نہیں ہیں ۔

ای ٹی وی بھارت نے ڈوڈہ میں مختلف قسم کے تاجر پیشہ افراد سے بات کی، جس میں لوگوں نے بتایا کہ 5 اگست کے بعد خطہ چناب کے تینوں اضلاع میں لوگ تعمیر وترقی سے محروم ہو گئے ہیں اس میں سب سے زیادہ جو طبقہ متاثر ہوا ہے وہ تاجر برادری ہے ۔

پانچ اگست کی شب پہلے اچانک جموں و کشمیر کے عوام کو گھروں میں قید کر دیا گیا۔جو جہاں تھا وہیں رہ گیا اُن ایام کی بات کوئی نہیں کرنا چاہتا ہے اور ناہی اُن بندشوں میں دوبارہ خود کو ڈالنا چاہتا ہے ۔ڈوڈہ میں لوگوں کا پانچ اگست کے فیصلے کے بلکل خلاف رد عمل ہے ۔

اس میں ہر عمر کا انسان شامل ہے۔ڈوڈہ میں ہوٹل چلانے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ اُن کا کام مکمل طور ٹھپ ہو گیا ہے پہلے ہوٹلوں کے باہر لوگوں کی بھاری بھیڑ جمع رہتی تھی لیکن آج گاہک کا انتظار کرنا پڑتا ہے ۔

اب بازار میں وہ چہل پہل رونقیں کہیں دور دور تک نظر نہیں آ تی ہیں۔اسکولوں کے صحن ابھی ننھے بچّوں کے آمد کے منتظر ہیں ۔ضلع ڈوڈہ کے قصّبہ جات میں بیشتر تجارتی مراکز چلانے والے گاؤں سے آتے ہیں لیکن پانچ اگست کے بعد وہ مالی خسارے کا شکار ہو گئے ہیں ۔

کئی لوگوں نے اپنا کاروبار ہی ترک کر دیا۔اگر چہ لوگ گھروں سے باہر نکلتے ہیں لیکن وہ کچھ بھی کہنے کے لئے راضی نہیں ہیں۔

ڈوڈہ میں اکثریتی و اقلیتی طبقہ کے لوگوں میں ریاست کو مرکز زیر انتظام علاقہ بنانے اور لداخ خطہ کو الگ کرنے کے خلاف سخت ناراضگی پائی جاتی ہے

لیکن وہ کیمرے کے سامنے بولنے کے لئے بلکل تیار نہیں ہیں۔پانچ اگست کے صبح سے ہی سیاسی سماجی انجمنوں سے وابستہ افراد کو جیل خانوں میں یا گھروں میں ہی قید کیا گیا جس کے بعد لوگوں میں خوف و ہراس پیدا ہو گیا جو حکومت کے خلاف بولنے لگا تو اُس کو پی.ایس.اے کے تحت پابند سلاسل کیا گیا تھا ۔

یہی وجہ ہے کہ آج کوئی بھی بولنے کے لئے تیار نہیں ہے جس کے پیچھے صرف پانچ اگست کے بعد حکومت کی طرف عوام کے خلاف اختیار شُدہ رویہ ایک بڑی وجہ ہے ۔انٹرنیٹ کے ذریعے چلنے والی دکانیں اب بند ہونے کے دہانے پر کھڑی ہیں اُن کا کہنا ہے کہ وہ بے روزگاری کی بھٹی میں جھلس رہے ہیں لیکن کوئی پُرسان حال نہیں ہے ۔

پانچ اگست کی شب جب انٹرنیٹ سروس پر قدغن لگایا گیا۔ اُسی روز سے وہ بیکار ہو گئے ہیں ۔کیونکہ اُن کا کام آن لائن درخواستیں جمع کرنے و دیگر انٹرنیٹ کے ذریعے ہونے والے کام پر ہی منحصر تھا جب انٹرنیٹ سہولیت دستیاب نہیں ہیں پھر وہ کیسے اس پیشہ کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔

اس پیشہ سے وابستہ ہزاروں کی تعداد میں نوجوان بے روزگار ہو گئے ہیں ۔یہی حال دیہات کا بھی ہے جہاں عوام کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی ہے آفیسر شاہی عروج پر ہے لوگ فاقہ کشی کا شکار ہو رہے ہیں ۔

لوگوں میں ڈومیسائل قانون لاگؤ ہونے کے بعد کئی طرح کے خدشات پائے جا رہے ہیں ۔کم پڑھا لکھا ہوا طبقہ اس بات سے پریشان ہے کہ اب غیر ریاستی باشندے اُن کی زمینوں پر قبضہ جمانے والے ہیں ، لیکن نوجوان طبقہ میں ڈومیسائل کے بعد زیادہ پریشان ہوا ہے

بائٹ

اور ممکنہ بے روزگاری ،جرائم کی شرح میں اضافہ ہونے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔

چائے والے (ٹی.سٹال) چلانے والے شدید طور پر متاثر ہوئے ہیں اُن کا کہنا ہے کہ اب وہ دِن گزار رہے ہیں ورنہ کام برائے نام ہے دکان کا کرایہ بھی مشکل سے پورا ہو رہا ہے ۔

خطہ چناب میں کُل ملاکر تمام لوگوں کا ایک جیسا ہی کہنا ہے جس میں صرف بی.جے.پی سے وابستہ عہدیدار اور حمایتی مجبوری میں حکومتی فیصلے کی حمایت کر رہے ہیں اُن کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کے ہر فیصلے کے ساتھ کھڑے ہیں جیسے حکومت چلائے گی ویسے چلنا پڑے گا ۔لیکن کیمرے کے سامنے وہ بھی بولنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.