ترال: وادی کشمیر جہاں بڑھتی بے روزگاری سیاسی اور سماجی سطح پر موضوع بحث بنی ہوئی ہے وہیں یہاں ایسے نوجوانوں کی کمی بھی نہیں ہے جنھوں نے سرکاری نوکری کے پیچھے دوڈنے کے بجاے ہمت اور حوصلے سے کام لیکر نہ صرف اپنے آپ کے لیے روزگار تلاش کیا بلکہ دیگر لوگوں کو بھی روزگار فراہم کرنے لگے ہیں۔
ایسے ہی باہمت نوجوانوں میں جنوبی کشمیر کے ترال علاقے سے تعلق رکھنے والے نور محمد بٹ بھی ہیں، جو ایک چھوٹے سے گاؤں کملا میں بڑے خواب لیکر پیدا ہوئے۔ نور محمد کے مطابق ان کے والدین مگس بانی کے ساتھ وابسطہ تھے تاہم وہ روایتی طرز پر یہ کام کرتے تھے۔ انھوں نے پہلے بیس چھتے خریدے پھر ایک سو دس اور پھر کبھی پیچھے نہیں مڑے اور آج مگس بانی کے شعبے میں نور محمد اپنی ایک الگ شناخت بنا چکے ہیں۔
نور محمد کے بقول اس صنعت کو فروغ دینے میں انکو مشکلات بھی پیش آئی لیکن انھوں نے اسے خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کیا اور آج نور محمد کے شھد کا برانڈ ویلی الاصل نہ صرف ملک بلکہ بیرون ملک بھی فروخت ہو رہا ہے۔ نور محمد کہتے ہیں کہ شھد انسانی جسم کے لیے ایک قدرتی غذا ہے اور موجودہ دور میں جبکہ ذیابطیس کی بیماری بڑھ رہی ہے، لوگ شھد کا زیادہ استعمال کر رہے ہیں جو کہ ایک اچھی بات ہے۔ لوگوں کو چاہیے کہ وہ مقامی بی کیپرس سے ہی شھد حاصل کریں کیونکہ بازاروں میں کشمیری شھد کے نام پر نقلی شھد بھی فروخت کیا جا رہا ہے۔
نور محمد نے بتایا کہ وہ مگس بانی کو فروغ دینے کے لیے کام کر رہے ہیں اور پہلے انہوں نے اپنے گاؤں سے ہی کئی نوجوانوں کو ٹریننگ دی ہے، جو اس وقت خود اپنا روزگار کر رہے ہیں اور دیگر نوجوانوں کے لیے بھی روزگار پیدا کر رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ وہ کالجس اور دیگر مقامات پر جاکر بھی آگاہی فراہم کررہے ہیں، جسکے لیے انہیں کئی بار اعزازات سے بھی نوازا گیا ہے۔
انھوں نے نوجوان نسل سے اپیل کی کہ وہ سرکاری اسکیموں کا بھرپور فائدہ اٹھائے اور سرکاری نوکری کے بجائے خود اپنی یونٹ کھڑا کریں۔ نور محمد نے یہ انکشاف بھی کیا کہ وادی میں پچھلے کئی برسوں سے کیکر نامی درختوں کی بے ہنگم کٹائی سے ایک خاص قسم کے شھد کی پیدوار میں کمی آئی ہے اور اسلیے کیکر کی شجرکاری وقت کی اہم ضرورت ہے۔