وادی کشمیر میں علیحدگی پسندوں اور علاقائی جماعتوں کے رہنماؤں نے پیر کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دو روزہ دورے کے دوران کوئی بھی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
واضح رہے کہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد سے انتظامیہ نے تین سابق وزرائے اعلیٰ سمیت درجنوں علیحدگی پسند اور ہند نواز سیاسی رہنماؤں کو یا تو نظر بند کیا گیا ہے یا پھر حراست میں لیا گیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق ٹرمپ کے بھارت پہنچنے کے بعد سے ہی وادی بھر میں سخت حفاظتی انتظامات کئے گئے ہیں۔
ٹرمپ کے بھارت دورے کے دوران وادی میں سخت سکیورٹی انتطامات اس وجہ سے کئے گئے ہیں کیوں کہ سنہ 2001 میں بل کلنٹن کے دورہ ہند کے موقع پر نامعلوم مسلح افراد نے جنوبی کشمیر کے چھٹی سنگھ پورہ میں 36 سکھوں کو ہلاک کر دیا تھا، اس دوران علیحدگی پسند رہنماؤں نے وادی کشمیر میں ہڑتال کی کال بھی دی تھی۔
وہیں نومبر 2010 میں حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی شاہ گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق نے امریکی صدر بارک اوبامہ کے دورہ بھارت کے موقع پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے بند کی کال دی تھی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ بھارت کے پہلے دن وادی کشمیر میں گذشتہ دنوں کے مقابلے میں حالات معمول کے مطابق رہے جب تقریباً سات ماہ کے عرصے کے بعد اسکولز دوبارہ کھل گئے اور 10 لاکھ سے زائد طلباء نے پڑھائی شروع کی، اس موقع پر کسی بھی حریت رہنما یا علیحدگی پسند تنظیم نے کسی بھی طرح کا کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
یہاں تک کہ جموں و کشمیر کے ہند نواز سیاسی جماعتوں جیسے نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے بھی کوئی بیان جاری کرنے سے گریز کیا۔گذشتہ برس دونوں جماعتوں نے ٹرمپ کے مسئلہ کشمیر میں ثالثی کی پیشکش کا خیر مقدم کیا تھا۔