گزشتہ روز چین کی جانب سے آئے بیان کے بعد بھی لداخ میں حقیقی لائن آف کنٹرول پر موجودہ زمینی صورتحال میں کوئی بدلاؤ دیکھنے کو نہیں مل رہا وہیں بھارتی افواج نے بھی علاقے میں گشت اور دیگر حفاظتی اقدامات بڑھا دیے ہیں۔
بھارتی وزارت دفاع کے ایک سینئیر افسر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ''چین کی جانب سے آئے بیان کا تب تک کوئی مطلب نہیں ہے جب تک کی زمینی صورتحال میں کوئی تبدیلی دیکھی جائے۔ وہ ہمارے علاقے میں تین چار کلو میٹر اندر داخل ہو چکے ہیں۔ جب تک وہ بنا شرط واپس نہیں جائیں گے تب تک اس حوالے سے کوئی بھی بات ان کے ساتھ ممکن نہیں''۔
گزشتہ روز چین کی وزارت خارجہ کی جانب سے آئے بیان کے مطابق "حقیقی لائن آف کنٹرول پر صورتحال مستحکم اور قابو میں ہے۔ دونوں ممالک بات چیت سے تمام مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔"
واضح رہے کہ اس وقت تقریبا 10 ہزار پیپلز لیبریشن آرمی ( پی ایل اے) کے جوان حقیقی لائن آف کنٹرول پر چار- پانچ مقامات پر قیام کیے ہوئے ہیں۔ ان مقامات میں پینگ لیک، دم چوک اور گلون وادی علاقے میں صورتحال کشیدہ بنی ہوئی ہے۔
بھارتی وزارت دفاع نے بھی گزشتہ روز افواج کی دو کمپنیوں کو حقیقی لائن آف کنٹرول کی طرف چین کی جانب سے ہو رہی لگاتار کاروائی کا جواب دینے کے لیے روانہ کیا تھا۔
آفیسر کا مزید کہنا تھا کہ "آنے والے دنوں میں ہونے والی تین روزہ آرمی کمانڈرز کانفرنس میں سرحد کی حفاظت اور مشکلات کو لے کر تفصیلی بات ہونی متوقع ہے۔ اس کانفرنس کی صدارت بھارتی فوج کے صدر مکند نروانے کریں گے جب کی 6 آپریشن اور ایک ٹریننگ کمانڈ کے سینئر لیفٹیننٹ جنرلز شرکت کریں گے۔
واضح رہے کہ چین اور بھارت کے درمیان لداخ میں رواں مہینے کی پانچ تاریخ سے حالات کشیدہ بنے ہوئے ہیں۔ چین لگاتار بھارت اور چین کے درمیان سرحد پر تعینات سپاہیوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ اسلحہ اور بارود اکھٹا کرتا جا رہا ہے۔ وہیں پاکستان کی جانب سے بھی حد بندی معاہدے کی خلاف ورزی میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
چین نے گزشتہ روز بھارت میں موجود ان کے شہریوں کو واپس اپنے ملک لے جانے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ رواں مہینے کی 22 تاریخ کو بھارتی فوج کے صدر جنرل مقتل ناروانے نے لداخ کا دورہ کرکے صورتحال کا جائزہ لیا تھا۔