یہ بات اننت ناگ سے نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمنٹ اور جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے سابق جسٹس حسنین مسعودی نے ایک انٹرویو میں کہی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ فاروق عبداللہ ان متعدد سیاستدانوں میں سے ایک ہیں جنھیں انتظامیہ نے حراست میں رکھا ہے۔5 اگست کو جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت دفعہ 370 کی منسوخی سے قبل جموں و کشمیر میں ہند نواز سیاسی جماعتوں کے سینئر رہنماؤں، جن میں تین سابق وزرائےاعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، ان کے بیٹے عمر عبداللہ اور پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی کو نظر بند رکھا گیا۔
فاروق عبداللہ کو سرینگر میں گپکر روڈ پر واقع ان کی رہائش گاہ پر زیر حراست رکھا گیا ہے، جسے سب جیل قرار دیا گیا ہے۔
حسنین مسعودی نے کہا کہ' ڈاکٹر فاروق عبداللہ سرینگر کے 20 لاکھ لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں، لوگوں کی آواز کو کس طرح دبایا جاسکتا ہے؟'
بتادیں کہ گذشتہ روز پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کے پہلے دن لوک سبھا میں ہنگامہ ہوا ، جب حزب اختلاف نے رکن پارلیمان فاروق عبداللہ کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
کانگریس رہنما ادھیرنجن چودھری نے کہا تھا کہ پانچ اگست کو وزیر داخلہ امت شاہ نے بتایا تھا کہ جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلی و سابق مرکزی وزیر فاروق عبداللہ حراست میں نہیں ہیں بلکہ ان کی صحت خراب ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ وہ 108 دنوں سے زیر حراست ہیں، یہ کیسی ناانصافی ہے، کیا یہ ظلم نہیں ہے؟
حسنین مسعودی نے کہا کہ 'کانگریس، ڈی ایم کے اور دیگر جماعتوں کے اراکین نے فاروق عبد اللہ کی نظربندی کے خلاف ہمارے ساتھ احتجاج میں شرکت کی۔'
انہوں نے کہا کہ'ہم نے اسپیکر سے کہا کہ حکومت کی جانب سے عبداللہ کی قید کو منسوخ کیا جانا چاہئے تاکہ وہ پارلیمنٹ اجلاس میں شرکت کرسکیں۔'
گذشتہ ماہ جموں میں حراست میں لئے گئے نیشنل کانفرنس کے رہنماؤں کی رہائی کے بعد نیشنل کانفرنس کے وفد نے فاروق عبداللہ سے ملاقات کی تھی۔
دریں اثنا، راجیہ سبھا میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے رکن پارلیمنٹ میر فیاض اور نذیر احمد لاوے نے بھی پارلیمنٹ کے احاطے میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔