واضح رہے کہ سرینگر میں آج سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کی ہمشیرہ ثریا متو اور اور بیٹی صفیہ سمیت کئی کشمیری خواتین کو پولیس نے احتجاج کے دوران حراست میں لیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ کشمیری خواتین کا ایک گروپ دفعہ 370 کے خاتمے اور ریاست کی تقسیم کاری کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔مظاہرین میں خواتین کارکن اور معروف ماہرین تعلیم شامل تھیں۔
نیشنل کانفرنس کے بیشتر رہنماوں اور کارکنان نے انتظامیہ کے اس قدم کو بے مثال اورعوام کے پر امن احتجاج کرنے کے حق کے خلاف قرار دیا ہے۔
نیشنل کانفرنس کے سینئیر رہنماؤں نے شیر کشمیر بھون سے جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں کہا، "سابق وزرائے اعلیٰ کے رشتہ دار ہونے کی وجہ سے ان کا سیاسی استحصال نہیں کیا جانا چاہئے جس کی وجہ سے انتظامیہ ان سے آزادی، نقل و حرکت اور اظہار خیال کی آزادی چھین نہیں سکتے ہے۔
نیشنل کانفرنس کے رہنماؤں نے سیاسی رہنماؤں اور عام شہریوں کو حراست میں لیے جانے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
احتجاج کے دوران ان خواتین نے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن میں بنیادی حقوق کا احترام کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ان پلے کارڈوں پر یہ بھی لکھا تھا کہ کشمیری دلہنیں فروخت کیلئے نہیں ہیں اور' ملک کو جھوٹ بول کر گمراہ کرنا بند کرو'
نیشنل کانفرنس کے رہنماؤں نے احتجاج کے دوران حراست میں لیے جانے والی تمام خواتین کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔