انہوں نے کہاکہ: 'معلوم ہوا ہے کہ حکومت نے فاروق صاحب پر پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق کیا ہے۔ پی ایس اے کے اطلاق کا حکومت کے پاس کوئی جواز نہیں ہے۔ اگر، انہوں نے واقعی فاروق صاحب پر پی ایس اے کا اطلاق کیا ہے تو ہم عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔ ہم عدالت کو بتائیں گے کہ یہ کیسا ملک ہے جہاں بغیر کسی جواز کے لوگوں پر پی ایس اے کا اطلاق کیا جاتا ہے'۔
اکبر لون نے کہا: 'فاروق صاحب جیسے انسان پر پی ایس اے کا اطلاق کرنے پر بھارت کو شرم آنی چاہیے۔ اگر یہاں بھارت کا کوئی نام لیوا تھا تو وہ فاروق عبداللہ تھا۔ اگر کسی نے گالیاں کھائی ہیں تو وہ فاروق عبداللہ ہیں۔ آج وہ فاروق صاحب کو یہ معاوضہ دے رہے ہیں۔ یہ افسوس کی بات ہے'۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا نیشنل کانفرنس کے مزید لیڈروں پر پی ایس اے کا اطلاق کیا جائے گا، ان کا کہنا تھا: 'ان لوگوں پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ آئینی طور پر ہم جو کرسکتے ہیں وہ کریں گے'۔
قابل ذکر ہے کہ انتظامیہ نے دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد سے کشمیر میں سبھی علاحدگی پسند قائدین و کارکنوں کو تھانہ یا خانہ نظر بند کر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ بی جے پی کو چھوڑ کر ریاست میں انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کے لیڈران کو سرکاری رہائش گاہوں، اپنے گھروں یا سری نگر کے شہرہ آفاق ڈل جھیل کے کناروں پر واقع سنٹور ہوٹل میں نظر بند رکھا گیا ہے۔ انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔
واضح رہے کہ پی ایس اے کو انسانی حقوق کے عالمی نگراں ادارے 'ایمنسٹی انٹرنیشنل' نے ایک 'غیرانسانی قانون' قرار دیا ہے۔ اس کے تحت عدالتی پیشی کے بغیر کسی بھی شخص کو کم از کم چھ ماہ تک قید کیا جاسکتا ہے۔ جموں وکشمیر میں اس قانون کا اطلاق حریت پسندوں اور آزادی حامی احتجاجی مظاہرین پر کیا جاتا ہے۔ جن پر اس ایکٹ کا اطلاق کیا جاتا ہے اُن میں سے اکثر کو کشمیر سے باہر جیلوں میں بند کیا جاتا ہے۔
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے رواں برس کے اپریل میں جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیاں میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ اگر نیشنل کانفرنس کوحکومت ملی تو پبلک سیفٹی ایکٹ کو ہٹایا جائے گا۔
انہوں نے کہا تھا: 'اگر ہمیں حکومت ملی تو ہم پبلک سیفٹی ایکٹ کو ہٹائیں گے اور پھر کسی بھی ماں کو اپنے بچوں کی تلاش کے لئے جیل خانوں میں نہیں جانا پڑے گا'۔
فاروق عبداللہ پر پی ایس اے کا اطلاق انکشاف اس وقت کیا گیا جب ایم ڈی ایم کے لیڈر وائیکو نے سپریم کورٹ میں ہیبیس کارپس کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔ (عدالتی نظام میں حبس بے جا یا ہیبیس کارپس کی درخواست کے تحت لاپتہ شخص کو عدالت میں پیش کرنا لازمی ہوتا ہے۔ اگر عدالت میں پیش کرنا ممکن نہ ہو تو یہ بتانا لازمی ہوتا ہے کہ وہ شخص کہاں ہے)'۔