جموں و کشمیر میں تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اسٹالن نے کہا کہ وہ "فاروق عبد اللہ ، محبوبہ مفتی اور دیگر کشمیری رہنماؤں کے سلسلے میں بہت فکر مند ہیں۔انہیں بلا وجہ اور بغیر کسی مقدمے کےقید میں رکھا گیا ہے''۔
جنوری 25 کو عمر عبداللہ کی ایک تصویر سماجی رابطے کی ویب سائٹز پر وائرل ہوئی تھی جس میں انکے چہرے پر لمبی سفید داڑھی اگی ہوئی ہے اور وہ ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کیمرے کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اس تصویر میں عمر عبداللہ ایک بھاری اونی ٹوپی پہنے ہوئے ہیں اور ہلکی برفباری میں لی گئی یہ تصویر کشمیر کے موجودہ موسم کی بھی عکاسی کررہی ہے۔ عمر عبداللہ سفید رنگ کی داڑھی والی تصویر کا سوشل میڈیا پر اشتراک کیا گیا۔
مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی نے بھی اس تصویر کو شیئر کرتے ہوئے اسے ‘بدقسمتی’ قرار دیا ہے۔
بنرجی نے لکھا تھا کہ''میں اس تصویر میں عمر عبداللہ کو نہیں پہچان سکتی ہوں۔ میں اداس ہوں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے جمہوری ملک میں یہ ہو رہا ہے۔ایسا کب ختم ہوگا؟ “
قابل ذکر ہے کہ یہ تصویر عین اسوقت منظر عام پر آئی جب ملک میں یوم جمہوریہ کی تقاریب کا آغاز ہوررہا تھا۔
5 اگست کو مرکز کی جانب سے دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد جموں و کشمیر کو دو مرکزی خطوں میں تقسیم کرنے کے بعد وادی میں سیاستدانوں ، سماجی کارکنوں ، وکلاء اور تاجروں کو حراست میں لیا گیا۔
جبکہ چند مقامی سیاستدانوں کو رہا کیا گیا تھا ، عمر عبد اللہ کے ساتھ دو دیگر وزرائے اعلیٰ یعنی ان کے والد فاروق عبداللہ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی بھی زیر حراست ہیں۔
جنوری15 کو عمر عبد اللہ کو ہری نواس سے اپنی سرکاری رہائش گاہ کے قریب واقع ایک مکان میں منتقل کردیا گیا تھا اور اس کی وجہ یہ بتائی تھی وادی کا دورہ کرنے والے مرکز کے ایک وزارتی وفد کی رہائش کے لیے اس علاقے کو استعمال میں لایا جائےگا۔
عمر عبداللہ ، محبوبہ مفتی اور دیگر سیاستدانوں کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 107 کے تحت حراست میں لیا گیا ہے۔