پائین سرینگر کے جڈی بل علاقے سے تعلق رکھنے والے 51 برس کے نذیر احمد ڈار کو گزشتہ دسمبر میں عراق میں حراست میں لیا گیا تھا جہاں وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ ایک مذہبی سفر پر گئے ہوئے تھے۔
ڈار اور انکے رشتہ داروں کو یہ ثابت کرنے میں کئی ہفتے لگے کہ انہیں عراقی حکام نے کسی دوسرے شخص کے بدلے حراست میں لیا ہے۔ انکے رشتہ داروں نے وزارت خارجہ کے ساتھ رابطہ کرکے رہائی کی کوششیں کیں۔
رہائی کےموقع پر نزیر احمد کے گھر پر خوشیوں کا ماحول بنا ہوا ہے۔
اپنے عزیزوں کے بیچ بیٹھے ڈار نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ "حراست میں اُن کو ہر قسم کی سہولیت بہم تھی۔ اچھا کھانا ملتا تھا لیکن گھر والوں سے بات کرنے کی اجازت نہیں تھی'۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ "جموں و کشمیر کی انتظامیہ، پولیس، ملک کی سرکار اور صحافیوں کی کوشش کا نتیجہ ہے کہ میں آج آپ سب کے بیچ ہوں۔"
اُن کا کہنا تھا کہ سرینگر ہوائی اڈّے پر پہنچ کر اُن کو یقین ہوا کی وہ آزاد ہیں اور اُن کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔
وہیں اُن کے رشتے داروں کا کہنا تھا کہ "مرکزی حکومت کی يقین دہانی کے باوجود بھی ڈار کی رہائی عمل میں نہیں ہو رہی تھی تاہم کافی مشکلات کے بعد جنوری مہینے کی 25تاریخ کو اُنہیں رہا کیا گیا۔"
ڈار اصل میں زائرین کے ایک 70 رکنی گروپ کا حصہ تھے جو سعودی عرب، ایران، شام اور عراق کے شیعہ مزہبی مقامات کی زیارت پر گئے ہوئے تھے۔ انکے بھتیجے عادل عباس کے مطابق اُن کو شام سے عراق آتے وقت نجف ہوائی اڈّے پر گرفتار کر لیا گیا۔"
اُن کا مزید کہنا تھا کہ "25 جنوری کو رات کے 1:30 بجے چاچا کا فون آیا کہ مجھے رہا کر دیا گیا ہے اور اب یہاں کی کچھ لوازمات پوری کرنی ہیں۔ اس کے بعد مجھے واپس اپنے ملک بھجا جائے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ "آج چاچا کو واپس اپنے بیچ دیکھ کے بہت زیادہ مسرت ہو رہی ہے۔
ڈار نے تما م لوگوں کا شکر ادا کیا جنہوں نے ان کے ایسے وقت میں ساتھ دیا۔"