آئی جی پی کشمیر وجے کمار نے کہا کہ سرینگر کے بمینہ علاقے سے تعلق رکھنے والے گمشدہ نوجوان نے شدت پسند تنظیم حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کی ہے۔
کشمیر پولیس زون جے انسپکٹر جنرل وجے کمار نے ای ٹی وی بھارت کی طرف اس نوجوان کی گمشدگی کے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ وہ نوجوان حزب المجاہدین تنظیم میں شامل ہوا ہے۔ انہوں نے اس سے متعلق مزید تفصیلات بتانے سے انکار کردیا-
ہلال کے بھائی ارشاد احمد نے پیر کے روز ای ٹی وی بھارت کو بتایا تھا کہ وہ گزشتہ اتوار یعنی 14 جون کو دوستوں سمیت گھر سے ناراناگ کے لیے تفریح کے لیے گیا تھا- اگرچہ اس کے دوست واپس آئے تھے لیکن ہلال انکے دوستوں کے مطابق واپس نہیں آئے-
انکا کہنا تھا کہ ہلال دہلی میں ایک نجی کمپنی میں کام کرہا تھا اور کووڈ 19 وبا کی وجہ سے وہ تین ماہ قبل گھر لوٹے تھے۔ارشاد احمد کہنا تھا کہ ہلال کو کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ ایم بی اے میں پی ایچ ڈی کے لیے داخلہ لیا تھا۔
انکا کہنا تھا انکے والدین گچھ برس قبل فوت ہوئے تھے جس کے بعد انہوں نے ہی ہلال کی کفالت کا ذمہ اٹھایا تھا۔
یاد رہے کہ اتوار کو سرینگر کے زنمر علاقے میں ہوئے تصادم کے دوران افواہیں گردش کر رہی تھی کہ اس چھڑپ میں ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں میں ہلال بھی شامل تھے، لیکن پولیس نے اس کی کوئی تصدیق نہیں کی تھی۔
اس افواہ کے ایک دن بعد ہلال کے بھائی اور اسکے قریبی رشتہ داروں نے سرینگر کی پریس کالونی میں احتجاج کیا تھا اور انتظامیہ کو ڈھونڈنے میں تیزی لانے کا مطالبہ کیا تھا-
اسکے بھائی ارشاد کا کہنا تھا کہ ہلال کو عسکریت پسندوں کے ساتھ کوئی وابستگی نہیں رہی۔
قابل ذکر ہے کہ ہلال سے قبل کشمیر میں ایک پی ایچ ڈی سکالر ماننا وانی عسکریت پسندوں میں شامل ہوئے تھے- منان وانی شمالی کشمیر کے لولاب علاقے سے تعلق رکھتے تھے اور اتر پردیش کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ جیولاجی میں پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔ گزشتہ برس لولاب کے علاقے میں ایک تصادم کے دوران منان وانی کو ہلاک کر دیا گیا۔
ان دونوں کے علاوہ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ سماجیات میں کنٹرکچول پروفیسر محمد رفیع اور ایم فل اسکلار سبزار احمد بھی عسکریت پسندوں میں شامل ہونے کے بعد مختلف تصادم آرائیوں میں ہلاک ہوئے تھے۔