حکام نے 4اور 5 اگست کی درمیانی رات مواصلاتی نظام معطل کردیا اور شہر سرینگر سمیت تمام بڑے قصبوں میں عوام کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کی ہے۔
حکام کو خدشہ ہے کہ ریاست کو دو یونین ٹریٹریز میں تقسیم کرنے اور اسکی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے فیصلے کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوسکتے ہیں۔
موبائل اور انٹرنیٹ خدمات کے ساتھ ساتھ پورا مواصلاتی نظام ابھی بھی متاثر ہے۔
جموں و کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ سمیت تقریباً 3 سو سیاسی لیڈران کو حراست میں لیا گیا ہے۔
وہیں پتھراؤ کے الزام میں حراست میں لیے گئے 26 قیدیوں کو سرینگر سینٹرل جیل سے آگرہ جیل منتقل کیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق سرینگر اور وادی کے دیگر علاقوں میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں۔ خطہ چناب اور پیر پنچال میں بھی بہت سے لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ ایوان بالا میں جموں و کشمیر کے آرٹیکل 370 کے ختم کیے جانے سے متعلق بل کو منظوری دی گئی جس کے پیش نظر وادی کے ساتھ ساتھ جموں خطے کے کئی علاقوں میں کرفیو نافذ کیا گیا ہے۔