سولہ برس منازہ نے 60 کلو گرم وزن کے فائنل مقابلے میں قزاکستان کو شکست دے کر سونے کا تمغہ اپنے نام کر لیا ہے۔
اس سے قبل منازہ نے سیمی فائنل میں روسی حریف کو چیمپیئن شپ سے باہر کا راستہ دکھایا تھا۔
سرینگر کے حبه کدل میں رہنے والی منازہ نے قومی سطح پر درجنوں میڈل اپنے نام کیے ہیں اور گزشتہ سال اُنہیں برونائی میں بھی 10ویں ایشیئن چیمپیئن شپ میں چاندی کا طمغہ حاصل کر کے بین اقوامی سطح پر خطے کا نام روشن کرنے والی پہلی لڑکی بنی۔
منزہ نے اپنی کامیابی کا سہرا اپنے والدین، بہن اور کوچز کے سر باندھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ 'مجھے شروعات سے وشو میں دلچسپی نہیں تھی۔ میں ترائکانڈو اور جوڑوں کھیلنا پسند کرتی تھی۔ تاہم کامیابی نصیب نہیں ہو رہائی تھی۔ پھر ایک دن اپنی بہن عروسہ غازی کے انعامات دیکھے تو لگا کہ میں بھی کر سکتی ہوں۔ بس تب سے ہی وُشو ہی میری زندگی بن گئی۔ میری بہن بھائی وشو کی عالمی کھلاڑی رہ چکی ہیں'۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ 'میرے والدین، بہن اور اساتذہ کے تعاون سے مجھے یہ کامیابی حاصل ہوئی ہے'۔
منزہ کہتی ہے کہ وادی میں کھلاڑیوں کو سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے وہ اپنے خواب کو پائے تکمیل تک نہیں پہنچا پاتی ہیں۔
وادی میں وشو کھلاڑیوں کو مل رہی سہولیات پر بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ 'ہم کو یہاں مکمل تعاون ملتا ہے تاہم دیگر ریاستوں کے مقابلے نہ کے برابر ہے۔ ماسکو کا میڈل میرا دوسرا بین اقوامی میڈل ہے لیکن انتظامیہ کی طرف سے کسی بھی قسم کی مالی معاونت یا انعامی رقم سے نوازا نہیں گیا، جبکہ دیگر ریاستوں میں کھلاڑیوں کو لاکھوں روپے دیے جاتے ہیں'۔
منزہ کے والدین اپنی بیٹی کی کامیابی پر کافی خوش ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ منزہ کو اس کی رات دن کی مشقت کا پھل ملا ہے۔
وہیں منازہ کی والدہ شاہین غازی کا کہنا ہے کہ ' میری بیٹی کو اس کے رات دن کی مشقت کا پھل ملا ہے۔ بطور والدین ہم نے اپنے بچوں کو ہر قدم پر تعاون کیا۔ جو ہر ایک والدین کا فرض ہوتا ہے'۔
ماسکو میں میڈل حاصل کرنے کی خبر پر اپنے جذبات ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'ہم ماسکو میں نہیں جا سکتے تھے۔ وادی میں سست رفتار انٹرنیٹ چل رہا تھا اور بین اقوامی کال کی شرح کافی زیادہ ہے اس لیے فون پر بات کرنا ممکن نہیں تھا۔ تاہم جب منازہ سے سونے کا تمغہ جیتا تو اس نے وی پی این کی مدد سے چل رہے واٹس ایپ پر میسیج کیا'۔
منازہ کا منانا ہے کہ 'اس وقت ایک لڑکی کو وشو جیسے کھیلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے اور کچھ حاصل کرنے کے لیے شروعات بھی جلدی کرنی چاہیے'۔
بتا دیں کہ وادیِ کشمر میں ایسی کئی باصلاحیت اور حوصلہ مند خواتین موجود ہیں۔ جنہیں کہیں نہ کہیں سہولیات دستیاب نہیں ہوتی یا ان کے کاموں کو سرہایا نہیں جاتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ان خواتین کو ہر اعتبار سے مدد فراہم کریں۔ تا کہ وہ جموں و کشمر کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کا نام روشن کرسکے۔