کشمیر میں لوگ صدیوں سے کڑاکے کی ٹھنڈ سے بچنے کے لیے کانگڑی کا استعمال کرتے آئے ہیں۔
یہاں یوں تو سرما چار ماہ پر مشتمل ہوتا ہے لیکن چالیس روزہ چلاں کلاں سرد ترین ہوتا ہے، جس کے دوران درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے چلا جاتا ہے۔ چلاں کلان 21 دسمبر سے جنوری 31 تک جاری رہتا ہے۔ اس دوران کانگڑی کی طلب بھی عروج پر ہوتی ہے۔
کشمیر میں کانگڑیوں کی کئی اقسام ہیں، جن میں چرار شریف، بانڈی پورہ، اسلام آباد، پلوامہ میں تیار ہونے والی کانگڑیاں قابل ذکر ہے۔
روایتی طور پر کانگڑی بنانے والوں کو 'کانل' کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ضلع پلوامہ کے رہمو علاقے میں تقریباً 17 کنبے اس کام سے وابستہ ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ کانگڑی بنانے کا کام دن بدن زوال پذیر ہوتا جا رہا ہے۔ نوجوان نسل اس کام میں دلچسپی نہیں رکھتی ہیں جس کی وجہ سے یہ فن چند لوگوں تک محدود ہو کررہ گیا ہے۔
جدید دور میں اگرچہ گرمی کے آلات دستیاب ہے لیکن کانگڑی کی اہمیت اپنی جگہ موجود ہے۔ کانگڑی کو 'پورٹیبل ہیٹر' بھی کہا جاتا ہے کیونکہ آپ اسکو اپنے ساتھ کہیں بھی لے جا سکتے ہیں۔
پرانے زمانے میں کشمیر کی کانگڑی صرف مٹّی کا برتن ہوا کرتی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ، کچھ کاریگروں نے بید کی تیلیوں کا استعمال کر کے اس دیسی ہیٹر کو بنانا شروع کیا۔
مرد، عام طور سے کانگڑی بنانے کا کام کرتے ہیں، اور بید چھیلنے کا کام عورتیں کرتی ہیں۔
کانگڑی بنانا ویسے تو ایک موسمی پیشہ ہے، لیکن یہ اِن کاریگروں کو سال بھر کا معاش فراہم کرتا ہے۔
کانگڑی، کشمیر کی سخت سردیوں میں لوگوں کو سکون دینے والی گرمی فراہم کرتی ہے۔ لیکن ایک ایسا فن جس سے لوگ نقطہ انجماد والی سردیوں سے محفوظ رہتے ہیں، آج اپنی آخری سانسیں گن رہا ہے۔
اس فن کو اسکل ڈیولپمنٹ کے تحت لانے کی ضرورت ہے تاکہ اس کو جدت بھی ملیں اور نئی نسل بھی اس سے آشنا ہو۔