مرکزی حکومت کی جانب سے 5 اگست کو جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد قدغنوں اور بندشوں کے سبب عام زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔
پانچ اگست کے بعد سخت ترین بندشوں کے سبب آمد ورفت پر پابندی اور سڑکوں پر ٹریفک غائب ہونے سے عوام گھروں میں ہی محصور ہوکر رہ گئے تھے۔
سرینگر کے مصروف ترین پازار لال چوک اور اس کے گرد و نواح کی سڑکوں پر صبح بھاری تعداد میں نجی گاڑیوں اور موٹر سائیکلز کی کی بھر مار سے جگہ جگہ ٹریفک جام کے مناظر دیکھے گئے۔
مقامی نوجوانوں نے کیمرے کے سامنے نہ آنے کی شرط پر ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ان ایام میں صبح سویرے ایسے ٹریفک جام کے مناظر روزآنہ دیکھے جاتے ہیں جس سے آمد ورفت میں مشکلات کا سامنا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مختلف سرکاری و نجی دفاتر میں کام کررہے ملازمین کی کثیر تعداد کے ساتھ ساتھ دو گھنٹے کے لیے دکانیں اور بازار کھل جاتے ہیں جس کے سبب خریداروں کی بھی کثیر تعداد موجود رہتی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ کئی ہفتوں سے وادی کشمیر کے بیشتر اضلاع میں دکانیں صبح صرف دو گھنٹے کھل جاتی ہے اور 10 بجے کے آس پاس پھر سے بند ہوجاتی ہیں۔