انصاری، پیپلز کانفرنس کے لیڈر ہیں اور انہیں حکام نے 5 اگست سے حراست میں رکھا ہے۔
شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ' عمران رضا انصاری ان کے سیاسی رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبی رہنما بھی ہیں۔'
اںہوں نے محرم کے موقع پر عمران رضا انصاری کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ وہ مذہبی فرائض اور روایات کا اہتمام انکی قیادت میں کریں۔
عمران انصاری، شعیہ فرقے سے وابستہ لوگوں کی ایک حصے کے مذہبی قائد ہیں اور ایام محرم کے دوران انکی قیا دت میں عزاداری کی مجالس مختلف علاقوں کے امام باڑوں میں منعقد کی جاتی ہیں۔ انکا حلقہ اثر سرینگر، بڑگام، بارہمولہ اور بانڈی پورہ اضلاع میں ہے۔ 2016 میں انکے والد مولوی افتخار حسین انصاری کی رحلت کے بعد انہیں، عمران انصاری اس شعیہ طبقے کے سیاسی اور مذہبی لیڈر بنائے گئے۔
انصاری کے پیروکار انکے ساتھ والہانہ عقیدت رکھتے ہیں اور انہیں اپنی ذاتی خوشی یا غم کی تقریبات میں شریک کرنا اپنے لئے باعث سعادت سمجھتے ہیں۔
معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ تین ہفتوں سے زائد کی انکی حراستی مدت کے دوران انکے پیروکاروں نے جیل میں ہی ان سے نکاح پڑھوائے۔
انصاری، سرینگر کی ڈل جھیل کے کنارے واقع مشہور سنطور ہوٹل میں نظر بند ہیں جسے حکام نے عارضی جیل میں تبدیل کیا ہے۔ اس جیل میں دو سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت درجنوں ہند نواز سیاسی رہنما اور کارکن نظر بند ہیں جنہیں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کالعدم قرار دئے جانے کے مرکزی حکومت کے فیصلے کے بعد حراست میں لیا جاچکا ہے۔
ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے شمالی کشمیر سے آئے ہوئے عمران رضا انصاری کے ایک مرید شبیر حسن نے کہا کہ' ان کی بیٹی کا نکاح طے ہو چکا ہے اور اس سلسلے میں وہ سنتور ہوٹل میں عمران انصاری کے پاس جاکر نکاح پڑھوائیں گے۔'
سنتور ہوٹل کے باہر قطار میں شبیر کے ہمراہ دولہے کے رشتہ دار بھی ہاتھوں میں نکاح نامہ لیے قطار میں کھڑے تھے۔