سرینگر کے قلب لال چوک سے متصل سرائے پائین علاقے میں اس طرح کے پوسٹر لگائے گئے ہیں۔
ان پوسٹرز میں سرکاری ملازمین کو ڈیوٹیوں پر حاضر نہ ہونے کیلئے کہا گیا ہے اور عام لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ وہ 'سیول کرفیو' جاری رکھیں۔
یہ پوسٹر ایسے وقت میں نمودار ہوئے ہیں جب حکام کوشش کررہے ہیں کہ وادی میں عام زندگی معمول کے مطابق بحال ہو۔ حکام کہتے ہیں کہ بیشتر علاقوں سے بندشیں ہٹائی گئی ہیں ۔
ان پوسٹرز میں عوام کو سماج کے غریب اور مزدور طبقہ خصوصاً یومیہ اجرت پر کام کر رہے افراد کی مالی معاونت کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔
دکانوں، دفاتر اور تجارتی مراکز کو بند رکھتے ہوئے پوسٹر میں عوام کو سڑکوں پر ٹریفک کی نقل و حمل کو بھی پوری طرح معطل رکھنے کی اپیل کی گئی ہے۔
ماضی میں اس طرح کے ہدایت نامے علیحدگی پسندوں کی جانب سے جاری کئے جاتے تھے اور عام طور پر انکے پریس نوٹ اخبارات میں شائع ہوتے تھے لیکن موجودہ صورتحال میں مواصلاتی نظام پر پابندی اور علیحدگی پسندوں کی تمام قیادت کو گرفتار کئے جانے کے بعد انکی جانب سے پریس نوٹ اجرا نہیں کئے جارہے ہیں۔
مقامی اخبارات میں بھی کوئی ایسی تحریر شائع نہیں ہوتی ہے جس میں حکومت کی پالیسیوں کی تنقید یس مخالفت کی گئی ہو۔
دریں اثناء بعض علاقوں میں مقامی کمیٹیوں نے طلبہ کیلئے جنی ٹیوشن مراکز قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ادارہ اوقاف غوثیہ مہاراجہ بازار نے اعلان کیا ہے علاقے میں طلباء و طالبات کے لئے ایک عارضی ٹیوشن سینٹر قائم کیا جائے گا۔ ایک پوسٹر میں کہا گیا کہ مہاراج بازار، سرائے بالا، سرائے پائین ، امیرا کدل اور متصلہ علاقوں میں رہ رہے والدین رضاکارانہ ٹیوشن کیلئے اپنے بچوں کا اندراج کریں ۔
اس پوسٹر میں کہا گیا ہے کہ موجودہ صورتحال کے پیش نظر طلباء کی تعلیم بری طرح متاثر ہو رہی ہے جس کی وجہ سے انہوں نے یہ اقدام اٹھانے کی سعی لی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ دفعہ 370اور 35اے کی منسوخی کے بعد گورنر انتظامیہ کی جانب سے جموں و کشمیر کے طول عرض میں سخت بندشیں عائد کرنے کے علاوہ مواصلاتی نظام کو بھی جزوی یا کلی طور معطل کیا گیا۔
ان بندشوں اور قدغنوں کے بیچ جہاں عام زندگی بری طرح مفلوج ہو کر رہی گئی اور تمام شعبہ ہائے زندگی متاثر ہوئے وہیں طلباء کی تعلیم پر بھی برے اثرات مرتب ہوئے۔
حکام کہتے ہیں کہ بیشتر اسکولوں کو درس و تدریس کیلئے کھول دیا گیا ہے لیکن مقامی لوگوں کے مطابق ، مواصلاتی نظام کی عدم موجودگی میں وہ اپنے بچوں کو اسکول روانہ کرنے سے کترارہے ہیں۔ بیشتر والدین کا کہنا ہے کہ مخدوش سلامتی صورتحال میں بچوں کا اسکول جانا مناسب نہیں ہے ۔