قابل ذکر ہے کہ رواں ماہ کی 4 اور 5 اگست کی درمیانی شب میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی اور سجاد لون سمیت کئی سیاسی رہنما گرفتار کیے گئے تھے۔
تین بار وزیراعلیٰ اور سرینگر پارلیمانی حلقے کے رکن فاروق عبداللہ کی سرینگر میں واقع رہائش گاہ کے باہر تعینات سکیورٹی اہلکاروں نے ای ٹی وی بھارت کو کہا کہ 'ہمیں انتظامیہ کی جانب سے فاروق عبداللہ کی سکیورٹی میں کسی قسم کی تبدیلی سے متعلق کوئی احکامات موصول نہیں ہوئے ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ 'فاروق عبداللہ صحت مند ہیں اور مکمل طور پر حفاظت میں ہیں۔'
فاروق عبداللہ کی سکیورٹی پر مامور حفاظتی اہلکاروں کے مطابق انہیں فاروق عبداللہ سے کسی کو ملنے یا بات کرنے کی اجازت نہ دینے کے احکامات موصول ہوئے ہیں۔
سابق وزیراعلیٰ اور فاروق عبداللہ کے فرزند عمر عبداللہ کی رہائش گاہ کے باہر اگرچہ سکیورٹی اہلکار نظر نہیں آ رہے تھے، تاہم دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد اندر سے ایک اہلکار نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ 'یہاں کوئی نہیں ہے، صاحب (عمرعبداللہ) کو کہیں اور منتقل کیا گیا ہے، مجھے نہیں معلوم کہاں!'
کیمرے سے عمر عبداللہ کی رہائش کی عکس بندی کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'یہاں کی عکس بندی بند کرو، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ یہ محفوظ علاقہ ہے، یہاں کیمرہ اور میڈیا کو اجازت نہیں۔'
محبوبہ مفتی کی رہائش گاہ کے باہر بھی کچھ ایسے ہی مناظر نظر آئے، گپکار میں ان کی رہائش گاہ کی طرف جانے اور آنے والے تمام راستوں پر سی آر پی ایف کی گاڑی تعینات ہے۔
وہاں تعینات ایک اہلکار نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'ان کی رہائش گاہ پر بھی سکیورٹی میں کسی قسم کی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔ سرینگر کے چرچ لین میں واقع جموں و کشمیر پیپلز کانفرنس کے چیئرمین سجاد لون کی رہائش گاہ کی حفاظت پر مامور سکیورٹی اہلکاروں نے کیمرے کے سامنے آنے سے بالکل انکار کر دیا اور انہوں نے بھی وہی جواب دیا کہ سجاد لون یہاں نہیں کہیں اور منتقل کیے گئے ہیں۔'
واضح رہے کہ وادی کشمیر میں آج 22 روز سے بندشیں بدستور جاری ہیں جبکہ وادی بھر میں فون اور انٹرنیٹ خدمات کی معطلی بھی تاحال جاری ہیں۔
کشمیر میں تعلیمی ادارے اور بیشتر بینک بند ہیں۔ اگرچہ سرکاری دفاتر کھولے گئے ہیں۔ تاہم ان میں معمول کا کام کاج ٹھپ ہے۔ وادی میں ریل خدمات بھی گذشتہ تین ہفتوں سے معطل ہے۔
وادی میں معمول کی زندگی 5 اگست کو اس وقت معطل ہوئی جب مرکزی حکومت نے ریاست کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے مرکز کے زیر انتظام علاقے بنانے کا اعلان کر دیا۔