وہیں پیر و جوان کی چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کو دکانوں، سڑک کے کناروں اور چھوٹے چھوٹے پارکوں میں موجودہ حالات پر بحث و مباحثے میں بھی مشغول دیکھا جا رہا ہے۔
تمام تر تجارتی سرگرمیاں مفلوج رہنے کے باعث لوگوں کو بالخصوص تجارت پیشہ افراد جن کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ بمشکل ہی کھل کر بات کرنے کا وقت ملتا تھا، آج کل اپنے اہل خانہ کے ساتھ دن بھر رہتے ہیں۔
سرینگر کے ایک دکاندار نے کہا کہ 'میں صبح سے شام تک بلکہ بسا اوقات رات دیر گئے تک اپنی دکان پر گاہکوں کے ساتھ مشغول رہتا تھا لیکن اب چونکہ گذشتہ زائد از تین ہفتوں سے دکان بند ہے لہٰذا اب میں صبح ناشتہ کرنے کے بعد ہی جب باہر نکلتا ہوں تو دکانوں پر بیٹھے لوگوں کے ساتھ بحث و مباحثے میں شریک ہو جاتا ہوں'۔
انہوں نے کہا کہ 'محلے کے لوگوں کے ساتھ اس طرح ملاقات بھی ہوتی ہے اور وقت گزاری بھی ہو جاتی ہے۔'
ایک پرائیوٹ کمپنی میں کام کرنے والے ایک نوجوان نے کہا کہ 'وادی میں جاری صورتحال سے اگرچہ میں بے روزگار ہوا ہوں لیکن مجھے اپنے رشتہ داروں سے ملنے کا موقع ملا ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'میں صبح سویرے ڈیوٹی پر روانہ ہو جاتا تھا اور شام کو گھر واپس لوٹتا تھا اب چونکہ یہاں سب کچھ ٹھپ ہے لہٰذا مجھے جہاں رشتے داروں کو ملنے کا موقع ملا، وہیں اپنے دوستوں کے ساتھ گلیوں میں دن بھر کرکٹ کھیلنے کا بھی موقع میسر ہوا، اس طرح وقت بھی گذر جاتا ہے'۔
شہر خاص سے تعلق رکھنے والے ایک شہری کا کہنا ہے کہ 'وادی میں تجارتی سرگرمیاں مفلوج رہنے کے باعث لوگ اب چار پیسے کمانے سے زیادہ توجہ کسی طرح وقت گذارنے پر دیتے ہیں تاکہ ذہنی بیماریوں کے شکار نہ ہو سکیں۔'
ان کا کہنا ہے کہ 'یہاں جب تمام تر تجارتی سرگرمیاں بند ہیں۔ بازار سنسان ہیں تو لوگ وقت گذارنے کے لیے مختلف طریقے اپنانے پر مجبور ہیں۔ میں دن بھر اپنے کمرے میں ٹی وی دیکھتا ہوں، کبھی نیوز دیکھتا ہوں تو کبھی کوئی تفریحی پروگرام، اس طرح وقت بھی گذر جاتا ہے اور دیگر پریشانیوں سے بھی راحت مل جاتی ہے۔'
ادھر دیہی علاقوں میں لوگ اپنے کھیت کھلیانوں یا میوہ باغوں میں مخلتف قسم کے کاموں میں مصروف دیکھے جاتے ہیں۔ تاہم شہر سری نگر کے لوگوں کے لیے موجودہ صورتحال سوہان روح بن گئی ہے۔
بتادیں کہ رواں ماہ کی پانچ تاریخ کو مرکزی حکومت کی طرف سے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد سے وادی کشمیر میں جہاں بازار بند اور تمام تر کاروباری سرگرمیاں مفلوج ہیں، وہیں انٹرنیٹ خدمات بھی مکمل طور پر بند ہیں۔