سرینگر شہر میں ایک بار ٹریفک کی نقل و حمل کو بند کر دیا گیا اور انتظامیہ نے مظاہرین کو روکنے کے لیے اقوامِ متحدہ کے فوجی مبصرین کے دفتر کی طرف جانے والے پانچ میں سے چار راستے جمعرات کی رات سے ہی بند کر دیے گئے۔
اطلاعات کے مطابق مظاہرے کی کال صورہ سمیت بیشتر علاقوں میں علیحدگی پسندوں کی جانب سے چسپاں کیے جانے والے پوسٹرز کی مدد سے دی گئی جن میں کشمیریوں سے کہا گیا کہ وہ حکومت کے فیصلے کے خلاف نمازِ جمعہ کے بعد سرینگر میں اقوامِ متحدہ کے دفتر تک جلوس نکالیں۔
وادی میں دوکانیں، کارروباری ادارے، تمام تر تعلیمی ادارے بند ہیں جس کی وجہ سے عام زندگی متاثر ہوکر رہ گئی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے بھارت سے کشمیر میں مواصلاتی نظام سے پابندیاں ختم کرنے کو کہا ہے۔
انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ ہائی کمشنر کے دفتر کی جانب سے جاری کیے گئے تحریری بیان کے مطابق ادارے سے منسلک ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ریاست جموں اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد پابندیوں کے نفاذ کے باعث خطے میں کشیدگی بڑھنے کا امکان ہے۔
یہ بیان ادارے کی ویب سائٹ پر موجود ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کشمیر سے آنے والی خبروں کے مطابق رواں ماہ کی چار تاریخ سے جموں اور کشمیر میں مواصلاتی نظام تقریباً مکمل طور بند ہے اور انٹرنیٹ، موبائل، لینڈ لائن اور کیبل نیٹ ورک کی سروس بھی منقطع کر دی گئی ہے۔