وادی کشمیر میں تعلیمی ادارے اور بیشتر بینک بند ہیں۔ اگرچہ سرکاری دفاتر کھولے گئے ہیں تاہم ان میں معمول کا کام کاج ٹھپ ہے۔ وادی میں ریل خدمات بھی گزشتہ تین ہفتوں سے معطل ہے۔
وادی میں معمول کی زندگی 5 اگست کو اس وقت معطل ہوئی جب مرکزی حکومت نے ریاست کو خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ لیا اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے مرکز کے زیر انتظام علاقے بنانے کا اعلان کردیا۔
انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ وادی کی صورتحال بہتری کی جانب گامزن ہے تاہم اس کے برعکس سٹیٹ روڑ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی گاڑیاں بھی سڑکوں سے غائب ہیں۔ ان میں سے کچھ درجن گاڑیوں کو سول سکریٹریٹ ملازمین کو لانے اور لے جانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ ایس آر ٹی سی کی کوئی بھی گاڑی عام شہریوں کے لئے دستیاب نہیں ہے۔
اس کے علاوہ دفعہ 370 ہٹائے جانے کے بعد سے سٹیٹ بنک آف انڈیا کی بیشتر شاخوں پر تالا لگا ہوا ہے۔ وہ افراد جن کے ایس بی آئی کی بنک شاخوں میں کھاتے ہیں نے بتایا کہ بنک شاخوں کے مسلسل بند رہنے سے انہیں بہت سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بنک کے بیشتر اے ٹی ایم بھی بند پڑے ہیں
اطلاعات کے مطابق کشمیر کے سبھی دس اضلاع میں مسلسل 23 ویں دن بھی دکانیں اور دیگر تجارتی مراکز بند رہے تاہم سڑکوں پر نجی گاڑیاں چلتی ہوئی نظر آئیں اور پھل و سبزی فروشوں کو سڑکوں کے کنارے گاہکوں کا انتظار کرتے ہوئے دیکھا گیا۔
انتظامیہ نے کشمیر میں سبھی علیحدگی پسند رہنماؤں و کارکنوں کو قید یا نظر بند رکھا ہے۔ اس کے علاوہ بی جے پی کو چھوڑ کر ریاست کے ہند نواز سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو اپنے گھروں یا سرینگر کے شہرہ آفاق ڈل جھیل کے کناروں پر واقع سنٹور ہوٹل میں نظر بند رکھا گیا ہے۔ انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔ علاوہ ازیں ان سے کسی کو ملنے نہیں دیا جاتا۔
دریں اثنا سرینگر کے پائین شہر میں کرفیو کا نفاذ بدستور جاری ہے جبکہ وادی کے دیگر حصوں میں دفعہ 144 کے تحت چار یا اس سے زیادہ افراد کے ایک جگہ جمع ہونے پر پابندی عائد ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پابندیوں میں نرمی لانے کا سلسلہ جاری ہے اور صورتحال میں مزید بہتری کے بعد مواصلاتی خدمات کی بحالی بھی شروع ہوگی۔
ادھر سرینگر کے سیول لائنز اور بالائی شہر میں بھی کوئی پابندیاں نافذ نہیں رہیں۔ تاہم سڑکوں پر سکیورٹی فورسز کی تعیناتی برقرار رکھی گئی ہے۔ سیول لائنز اور بالائی شہر میں گاڑیاں سڑکوں پر دوڑتے ہوئے نظر آئیں، تاہم پبلک ٹرانسپورٹ کی نقل وحرکت بدستور معطل ہے۔