اگرچہ سرینگر کے سول سکریٹریٹ میں کچھ حد تک کام کاج ہورہا ہے اور اس وقت بھی ملازمین دفاتر میں کام کاج میں مصروف ہیں لیکن موجودہ صورتحال کے دوران وادی کشمیر میں پبلک ٹرانسپورٹ مکمل طور پر سڑکوں سے غائب ہونے سے لوگوں کو کافی مشکلات کا سامنا ہے۔
ملازمین کو دفاتر پہنچنے اور گھر واپس لوٹنے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
سول سکریٹریٹ اور دربار مُو سے منسلک دیگر تمام دفاتر سالانہ دربار مُو کی منتقلی کے سلسلے میں 26 اور 28 اکتوبر کو سرینگر میں بند ہونے کے بعد 4 نومبر کو جموں میں دوبارہ کام کاج شروع کریں گے۔
واضح رہے کہ 5 اگست کو جموں و کشمیر کی دفعہ 370 کے خاتمے اور ریاست کو دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کے بعد یہ پہلا دربار مُو ہوگا۔
اس سلسلے میں جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کی طرف سے باضابطہ طور پر ایک حکم نامہ جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق دربار مو سے منسلک ہفتے کے پانچ روز کام کرنے والے دفاتر26 اکتوبر کو سرینگر میں دفتری اوقات ختم ہونے کے بعد بند ہوں گے جبکہ ایسے دفاتر جن میں ہفتے کے چھ روز کام کاج جاری رہتا ہے۔ 28 اکتوبر کو دربار مو کے سلسلے میں بند ہوں گے۔
حکم نامے کے مطابق یہ تمام دفاتر جموں میں 4 نومبر سے دوبارہ کھل کر معمول کا کام کاج شروع کر دیں گے۔ اس کے علاوہ ایس آر ٹی سی کی طرف سے مختلف دفاتر کے ریکارڈ کو سرینگر سے جموں لے جانے کے لیے بھی خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں اور اس مقصد کے لیے معقول تعداد میں ٹرک دستیاب رکھے جائیں گے۔
واضح رہے کہ اس روایت کی داغ بیل سنہ 1872 میں ڈوگرہ راج کے اْس وقت کے فرماں روا مہاراجہ رنبیر سنگھ نے ڈالی تھی۔ سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ایک بار کہا تھا کہ موسم سرما کے دوران دربار مو دفاتر سرینگر میں کام کرنا چاہیے کیونکہ اْس وقت وادی کے لوگوں کو برف باری سے بجلی کی کٹوتی اور اشیائے ضروریہ کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور لوگوں کو حکومت کی مدد درکار ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ چونکہ موسم گرما کے دوران جموں کے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس لیے گرما کے دوران دربار مو دفاتر جموں میں کام کرنا چاہیے۔