ریاست کے محکمہ اریگیشن اینڈ فلڈ کنٹرول نے اس ضمن میں سنہ 2015 میں کلکتہ کی ایک نجی کمپنی کو جہلم کی کھدائی کا ٹھیکہ دیا تھا۔ دو ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت پر اس کمپنی کو جنوبی کشمیر کے سنگم سے لیکر شمالی کشمیر کے سوپور تک دریا کی سائنسی بنیادوں پر کھدائی کرنی تھی۔
محکمہ اریگیشن اینڈ فلڈ کنٹرول اور مذکورہ کمپنی نے ڈریجنگ کا کام 2017 تک مکمل کیا اور دعویٰ کیا کہ دریائے جہلم میں پانی برداشت کرنے کی قوت میں اضافہ ہو گیا ہے۔
تاہم مقامی لوگ کہتے ہیں کہ اس کمپنی اور محکمہ انسداد سیلاب نے کھدائی کے عمل میں کوتاہی برتی ہے جس کی وجہ سے دریائے جہلم کی حالت جوں کی توں ہے اور سرینگر کے ساتھ ساتھ دیگر سیلابی علاقوں میں 2014 کی طرح پھر سے سیلاب تباہی مچا سکتا ہے۔
غور طلب ہے کہ سنہ 2014 کے ستمبر مہینے میں آئے تباہ کن سیلاب کی وجہ سے سرینگر کے علاوہ دیگر اضلاع میں ہزاروں کروڑوں روپے مالیت کے نقصان کے علاوہ کئی جانیں بھی تلف ہوئی تھی۔
سرینگر سے وابستہ ماحولیاتی کارکن فیض بخشی نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’’سرکار نے دریائے جہلم کی ڈریجنگ بہت عرصے سےنہیں کی تھی جس کی وجہ سے سنہ 2014 کے سیلاب نے تباہی مچائی۔
فیض نے دعویٰ کیا کہ سنہ 2015 میں شروع کی گئی ڈریجنگ ساینٹفک بنیادوں پر نہیں کی گئی جس سے جہلم کی قوت برداشت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔
انہوں نے سرکار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’’سرینگر میں صرف دو مقامات - شیو پورہ اور پیرزو - کے پاس دریا کی ڈریجنگ کی گئی جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سرکار جہلم کی قوت برداشت بڑھانے میں کتنی سنجیدہ تھی۔‘‘
فیض نے مزید کہا کہ ’’جہلم سے ریت بھی قانونی لوازمات کو بالائے طاق رکھ کر نکالی گئی اور محکمے نےخود ہی قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ سابق گورنر ستیہ پال ملک کی انتظامیہ نے ڈریجنگ میں ممکنہ بےضابطگیوں کی تحقیقات کا حکم صادر کیا تھا۔
لیکن محکمہ اریگیشن اینڈ فلڈ کنڑول کے ٹیکنیکل افسر احسان الحق نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ سنہ 2014 تک جہلم میں کبھی ڈریجنگ نہیں ہوئی تھی اور سال 2015 سے اس دریا میں ڈریجنگ کا آغاز کیا گیا تھا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ سنہ 2015 میں سائنسی بنیادوں پر اس دریا میں ضرورت کے مطابق ڈریجنگ کی گئی۔
احسان الحق نے مزید کہا کہ سنٹر فار واٹر اینڈ پاور ریسرچ انسٹی چیوٹ کی تجاویز کے بعد محکمے نے جہلم کی ڈریجنگ کا کام روک دیا کیونکہ انہوں نے محکمے کو مشورہ دیا کہ اس دریا کیلئے لانگ ٹرم پلاننگ کا منصوبہ بنایا جائے جس کے بعد ہی اس میں دوبارہ ڈریجنگ شروع کی جا سکتی ہے۔
سابق گونر ستیہ پال ملک کے دور میں ڈریجنگ کے متعلق انکوائری کے سوال کے جواب میں احسان الحق نے کہا کہ ’’ڈریجنگ میں ٹنڈرنگ اور دیگر لوازمات صاف و شفاف طریقے سے پورے کئے گئے تھے اور اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے۔‘‘ احسان الحق نے کھدائی کے معاملے میں کسی بھی طرح کی بےضابطگی کو مکمل طور پر مسترد کر دیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ جس کمپنی کو کام سپرد کیا گیا تھا اس نے ضرورت اور معاہدے کے مطابق کام مکمل کر لیا۔ وہیں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’’ڈریجنگ کافی فایدہ مند رہی جس سے دریا جہلم کے پانی برداشت کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔