ایسے میں فوج کی بیکن ونگ اس شاہراہ سے برف ہٹانے میں کافی مددگار ثابت ہوتی ہے۔
بیکن کے جوان تمام خطرات کے باوجود پوری مستعدی کے ساتھ برف ہٹا کر شاہراہ کو پھر سے آمد و رفت کے قابل بناتے ہیں۔
جموں سرینگر نیشنل ہائے وے 44 کو کشمیر اور خطہ لداخ کی شہ رگ کی حیثیت حاصل ہے لیکن سردیوں کے ایام میں بھاری برف باری کا قہر اس شاہراہ پر کچھ اس قدر ٹوٹ پڑتا ہے کہ یہ شاہراہ ہفتوں تک بند ہو جاتی ہے۔
ایسے میں شاہراہ کو دوبارہ آمد و رفت کے قابل بنانے میں بھارتیہ فوج کا ایک اہم حصہ بیکن یعنی باڈر روڈز آرگنائزیشن پیش پیش رہتی ہے۔
جہاں بیکن نے پورے ملک میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے وہیں کشمیر میں پیر پنچال کے پہاڑی دروں سے برف کو چیرتے ہوئے بیکن اہلکار عام لوگوں کے لیے راہیں ہموار کرتے ہیں۔
برفیلی ہواؤں اور منفی درجہ حرارت کے باوجود بیکن کے اہلکار اور اس سے منسلک دیگر مزدور اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر پرُخطر راستوں کو عام مسافروں کے لیے قابل سفر بناتے ہیں۔
جواہر ٹنل کے آر پار پہاڑی راستے سے بھاری برف ہٹانے کے لیے بیکن کے ساتھ کشمیری لیبرز بھی شانہ بشانہ رہتے ہیں۔ ایسے میں جدید ترین تکنیک سے لیس بیکن کے عملے کو برفانی تودوں اور کھسکتی چٹانوں کا ہمیشہ خطرہ رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک بیکن کے کئی لوگوں کو راستہ بحال کرنے کے دوران اپنی جانوں سے ہاتھ گنوانا پڑا ہے جبکہ کئی لوگوں نے بیکن کی شان بڑھانے کے لیے بہادری کے قصے بھی بیان کیے ہیں۔
پورے ملک کے پہاڑی علاقوں کے لیے اہم ترین بھارتی فوج کی اس نفری کا قیام سنہ 1965 میں کیا گیا جس کے بعد بیکن نے جدید انجینیئرنگ اور حوصلے کو اپنا عزم بنا لیا۔ بیکن نے اب تک کشمیر کی کئی پہاڑی چوٹیوں میں ایسی تاریخ رقم کی ہے جو شاید منظر عام پر نہ آئی ہو لیکن برفیلی چٹانوں کے بیچ دوڑتی یہ گاڑیاں بیکن کے حوصلے اور عزم کی کہانیاں خود ہی بیاں کر رہی ہیں۔