وادی کے تمام تعلیمی ادارے جزوی یا کلی طور بند ہیں اور تعلیمی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ حکام نے تعلیمی سرگرمیوں کو دوبارہ ڈگر پر لانے کی کئی کوششیں کیں لیکن ابھی تک یہ کوششیں بار آور ثابت نہیں ہورہی ہیں۔ نتیجے کے طور پر لاکھوں طلبہ کا تعلیمی مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔
نامساعد حالات کے ساتھ ہی کشمیر میں موسمی بدلاؤ نے اسکولوں کے کھلنے کی راہ مسدود کی۔ دوسری جانب اعلیٰ سرکاری دفاتر جموں منتقل ہوچکے ہیں چنانچہ ان وجوہات کی بنا پر کئی طلبہ نے اپنے تعلیمی مستقبل کو بچانے کیلئے جموں کی راہ لی ہے تاکہ یہاں وہ اپنی تعلیمی سرکؤگرمیوں کو جاری رکھ سکیں۔ جموں میں تاہم طلبہ کو بدستور اس دقت کا سامنہ ہے کہ یہاں بھی کشمیر کی طرح انٹرنیٹ کام نہیں کررہا ہے۔
جموں کے بٹھنڈی علاقے میں کشمیر سے آئے ہوئے طلبہ کی پڑھائی کا انوکھا اہتمام کیا گیا ہے۔ یہاں ایک نجی لائبریری میں 210 طالب علم ہر روز پڑھائی کے لیے آتے ہیں۔ یہ لائبریری اب جموں خطے کی سب سے بڑی پرائیویٹ لائبریری بن گئی ہے۔ ہر وقت طلبہ کی ایک بڑی تعداد یہاں کتابیں پڑھنے میں منہمک نظر آتی ہے۔
شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ بالائی علاقے اوڑی کی رہنے والی ایک طالبہ رودینہ نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ' یہ سب کو معلوم ہے کہ کشمیر میں حالات کس قدر خراب ہیں جس کے باعث بچوں کو وادی چھوڑ کر پڑھائی کرنے کے لیے آنا پڑتا ہے کیونکہ اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ تعلیم کے بغیر انسان تعمیر و ترقی کر سکے۔ ہمیں ملک کے دیگر حصوں کے طالب علموں سے مقابلہ کرنا ہے اور میں ان تمام ان طالب علموں سے پیل کرنا چاہتی ہوں جو ابھی بھی کشمیر میں ہیں کہ آپ بھی ہمت کرکے گھر سے باہر نکلیں اور اپنا تعلیمی سفر جاری رکھیں۔'
جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیان سے تعلق رکھنے والی منتظرہ منظور کا کہنا تھا کہ ' میں یونین پبلک سروس کمیشن کے امتحانات کی تیاری کے سلسلے میں جموں آئى ہوں کیونکہ شوپیان میں بھی کشمیر کے دیگر اضلاع کی طرح انٹرنیٹ خدمات دستیاب نہیں ہیں اور نہ ہی پڑھائی کا ماحول ہے جس کے بعد اب میں نے اس پرائیویٹ لائبریری میں داخلہ لیا اور پڑھائی شروع کر دی ہے'
اننت ناگ کے رہنے والے سمیر احمد کا بھی یہی کہنا تھا کہ' کشمیر میں ہم پڑھائی کرتے تھے لیکن اب وہاں ایسا ماحول نہیں ہے خاص کر دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد نا ہی کشمیر میں کتابوں کی دستیابی تھی اور نا ہی کشمیر میں انٹرنیٹ خدمات تھیں جس کے باعث میں نے اس لائبری میں داخلہ لیا۔'
اس لائبریری کے مالک و منیجر ایڈوکیٹ شکیل احمد کا کہنا تھا کہ ' 5 اگست سے کشمیر میں کشیدہ حالات کے باعث کشمیری طالب علموں نے کشمیر سے جموں کی طرف کوچ کیا ہے۔ طلبا کی کثیر تعداد کو دیکھتے ہوئے ہم نے لائبریری قائم کرنے کا فیصلہ کیا ۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'ہم نے ان بچوں کے لئے یہاں تمام طرح کی سہولیات دستیاب رکھی ہیں۔ اب میں حکومت سے اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ جموں میں موبائل انٹرنیٹ خدمات بحال کیا جائے تاکہ کشمیری طلبا کو اب جموں سے دہلی کے لئے ہجرت کرنا نہ پڑے۔'