پولیس بیان میں بتایا گیا کہ' 18جولائی کو امشی پورہ شوپیان میں ہوئے انکاؤنٹر کے بعد تین لاشوں کو پولیس کنٹرول روم سرینگر میں شناخت کیلئے رکھا گیا اور شناخت کرنے کے لیے معقول وقت دیا گیا تاہم لاشوں کی شناخت نہ ہوسکی جس کے بعد انہیں مجسٹریٹ کی موجودگی میں سپردخاک کیاگیا اور ان کے ڈی این اے نمونے بھی حاصل کئے گئے۔'
پولیس نے کہا ہے کہ میڈیا رپورٹوں اور اہل خانہ کی جانب سے دعویٰ کرنے کا سنجیدہ نوٹس لیتے ہوئے شوپیان پولیس ان دعوئوں کی حقیقت جاننے کی کوشش کرے گی اور ڈی این اے نمونے حاصل کرے گی تاکہ انہیں ملایا جاسکے۔
یہ بھٰ پڑھیںشوپیان تصادم سوالوں کے گھیرے میں، آرمی نے جاری کیا بیان
پولیس نے مزید بتایا کہ شناخت کے علاوہ پولیس دیگر تمام عوامل قانون کے مطابق بھی جانچنے کی کوشش کرے گی۔
اس دوران فوج نے بھی اپنے ایک بیان جاری کیا جس میں فوج نے بتایا کہ ہم نے سماجی رابطہ کی ویب سائٹ پر راجوری کے تین مزدوروں کے لاپتہ ہونے کی خبریں اور ان کی اس آمشی پورہ انکاؤنٹر کے ساتھ وابستگی کی خبریں پڑھی ہیں اور فوج اس تعلق سے تحقیقات کر رہی ہے۔
کیا شوپیان انکاؤنٹر فرضی تھا؟
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ مہینے کی 15 تاریخ کو راجوری کے رہنے والے امتیاز حسین، ابرار احمد اور تیسرے مزدور کا نام بھی ابرار احمد ہے، اپنے گھر سے شوپیان مزدوری کرنے کے لیے روانہ ہوئے تھے تاہم 17 جولائی کے بعد وہ اپنے رشتے داروں کے رابطے میں نہیں آئے ہیں۔ جس کے بعد گزشتہ روز ان تینوں افراد کے اہلخانہ نے گمشدگی کی اطلاع پولیس اسٹیشن میں درج کرائی۔ وہیں دوسری جانب سماجی رابطہ کی ویب سائٹوں پر ان کی گمشدگی اور جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیان میں 18 جولائی کو ہوئے تصادم میں ہوئی ہلاکتوں سے جوڑا جانے لگا ہے۔
شوپیان انکاؤنٹر میں تین عسکریت پسند ہلاک
اس کے بعد بھارتی فوج کے ترجمان کرنل راجیش کالیا نے کہا 'ہم نے سماجی رابطہ کی ویب سائٹ پر راجوری کے تین مزدوروں کے لاپتہ ہونے کی خبریں اور ان کی اس تصادم کے ساتھ وابستگی کی خبریں پڑھی ہیں۔ فوج اس تعلق سے تحقیقات کر رہی ہے۔'