عدالت نے فریقین کی دلیل سننے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا۔ میاں قیوم گزشتہ برس پانچ اگست سے پبلک سیفٹی ایکٹ ( پی ایس اے) کے تحت جیل میں قید ہیں۔
عدالت نے سرکاری وکیل بی اے ڈار کو میاں قیوم کو حراست میں لیے جانے کے تعلق سے تمام احکامات اور دیگر دستاویز بشمول ایف آئی آر عدالت کے سامنے پیش کرنے کی ہدایت دی جس کے بعد عدالت اپنا فیصلہ سنائے گی۔میاں قیوم کے وکیل ظفر شاہ نے عرضی میں دعویٰ کیا ہے کہ " بار صدر کی طبیعت ناسازگار ہے۔ وہ کئی امراض میں مبتلا ہیں اور ساتھ ہی جہاں انتظامیہ ملک کی تمام جیلوں میں سے کرونا وائرس کے خدشات کے پیش نظر بھیڑ کم کرنا چاہ رہی ہے تو ایسے میں ان کی جلد رہائی عمل میں لائی جانی چاہیے۔ "ظفر شاہ نے اپنی عرضی میں جیل میں بھیڑ بھاڑ کے تعلق سے عدالت عظمیٰ کی جانب سے جاری کیے گئے حکم نامے کا حوالہ بھی دیا ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل 4 مئی کو اس معاملے پر ہوئی دوسری سماعت کے دوران جسٹس علی محمد ماگرے اور جسٹس ونود چٹرجی کول پر مبنی ڈویژن بینچ نے میاں قیوم کے معاملے پر شنوائی رواں مہینے کی 18 تاریخ کو مقرر کی تھی۔
عدالت کا ماننا تھا کہ "کورونا وائرس کے پیش نظر وادی میں نافذ لاک ڈاؤن کی وجہ سے اس معاملے پر ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے سماعت ہونا ممکن نہیں ہے اس لئے 18 تاریخ کو جب تمام پابندیاں ہٹا دی جائیں گی تبھی صحیح ڈھنگ سے اس معاملے کے ہر پہلو کو دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔"اس سے قبل 17 اپریل کو معاملے کی پہلی سماعت کے بعد نئی تاریخ مقرر کرتے ہوئے عدالت نے انتظامیہ کو چار مئی تک اپنا جواب عدالت میں پیش کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔