گزشتہ برس پانچ اگست کے بعد پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت قید میں رہنے والے سرینگر کے ایک باشندے پر جموں و کشمیر عدالت عالیہ نے رہا کرنے کا حکمنامہ صادر کیا ہے۔
وہیں شمالی کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے باشندے پر عائد یہ ایکٹ بھی عدالت نے کالعدم قرار دے کر انہیں رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔
عدالت عالیہ نے سرینگر کے صورہ علاقے کے باشندے غلام حسن ٹپلو اور کپواڑہ کے عادل حسین شاہ پر عائد پی ایس اے کو کالعدم قرار دیے کر حکام کو ان دو قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔
غلام حسن ٹپلو کو سرینگر کے ضلعی مجسٹریٹ نے نو اگست کو پی ایس اے عائد کرکے انہیں حراست میں رکھنے کا حکم جاری کیا تھا، جبکہ عادل حسین شاہ کو کپواڑہ کے مجسٹریٹ نے جولائی 2018 میں پی ایس اے کے تحت قید کرنے کا حکم دیا تھا۔
ان دونوں افراد کے کیس کی سنوائی سرینگر کی عدالت عالیہ میں ہو رہی تھی، اور گذشتہ روز عدالت میں جسٹس تاشی رابستان نے ان کے پی ایس اے کالعدم کرنے اور انتظامیہ کو انہیں رہا کرنے کا حکم دیا۔
واضح رہے کہ پانچ اگست کو مرکزی حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر کی دفعہ 370 کے تحت حاصل خصوصی حیثیت ختم کرنے اور ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو خطوں میں منقسم کرنے کے بعد مرکزی سرکار کے اعداد و شمار کے مطابق 7357 افراد بشمول ہند نواز سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لیا گیا تھا، جن میں بیشتر افراد کو بیرونی ریاستوں کے جیلوں میں قید کیا گیا ہے۔
وزارت داخلہ نے پارلیمنٹ سیشن کے دوران جموں و کشمیر میں پی ایس کے تحت قید کئے گئے افراد کے اعداد و شمار بتاتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیر کے 396 افراد پر پانچ اگست کے بعد پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کیا گیا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ عالمی انسان حقوق پر کام کر رہی ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پی ایس اے کو "غیر قانونی قانون" قرار دے جموں و کشمر کی حکومت کو اسے منسوخ کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔