ETV Bharat / state

جموں و کشمیر ڈی جی پی نے صحافیوں کو پیٹے جانے پر نوٹس لیا - Jammu kashmir beating of journalists

جموں و کشمیر پولیس کے ڈائریکٹر جنرل دل باغ سنگھ نے بدھ کو پولیس کی جانب سے صحافیوں کے ساتھ گزشتہ روز کی گئی بدسلوکی کا نوٹس لیتے ہوئے سرینگر کے سینئر سپریڈنٹ آف پولیس کو ہدایت دی کہ قصوروار پولیس آفیسر کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔

Jk_sri_01_dgp_action_against_cop_dry_7205608
جموں و کشمیر ڈی جی پی
author img

By

Published : Aug 18, 2021, 12:59 PM IST

واضع رہے کہ گذشتہ روز جموں و کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سرینگر کے جہانگیر چوک میں پولیس نے صحافیوں کے ساتھ مارپیٹ کی۔ اس میں کئی صحافیوں کے زخمی ہونے کی خبر سامنے آئی۔

معاملے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے فوٹو جرنلسٹ وسیم اندرابی کا کہنا تھا کہ "ہم اپنا کام کر رہے تھے اور اسی دوران شیرگری تھانے کے ایس ایچ او آفتاب احمد نے ہمارے کام میں رکاوٹ پیدا کی۔ ہم سب پر لاٹھیاں برسائے گئیں۔ ویڈیوز میں سب دکھائی دے رہا ہے۔"

اُن کا مزید کہنا تھا کہ "چوٹ تو سب کو لگی ہے۔ ایک ساتھی کا کیمرہ اور لینس بھی توڑ دیا گیا۔ اس کے لیے کون ذمہ دار ہے؟ اس پولیس آفسر نے ہمیں دھمکی بھی دی کہ ہمارے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے گی۔"

Jk_sri_01_dgp_action_against_cop_dry_7205608
جموں و کشمیر پولیس کا ٹوئٹ

اس معاملے کی جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور دیگر لیڈران نے مذمت بھی کی۔ جہاں پی ڈی پی کی صدر اور جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلی محبوبہ مفتی نے ردعمل ظاہر کرتےہوئے کہا کہ "میڈیا ابھی گھنٹوں افغانستان کے صورتحال اور انسانی المیہ پر بحث کر رہی ہے لیکن کیا وہ کشمیر میں موجود اپنے کمیونٹی کے بارے میں آواز بلند کرے گی کہ آج کن لوگوں کو اپنا کام کرنے کی وجہ سے سکیوریٹی فورسز نے مارا؟"

وہیں، نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کا کہنا تھا کہ "یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ جموں و کشمیر پولیس کے اہلکار بے رحمی سے صحافیوں کی سرینگر میں پٹائی کر رہے ہیں۔ یہ صحافی صرف اپنا کام کر رہے تھے (خبر کی رپورٹنگ)۔ یہ نہ تو خبر بناتے ہیں اور نہ ہی وہ کہانی بنانے کے لیے واقعات کا انعقاد کرتے ہیں۔ میں اُمید کرتا ہوں کی لیفٹیننٹ گورنر ایسے معاملے دوبارہ پیش نہ آئیں، اس کے اقدامات اٹھائے گئے۔"

قبل ذکر ہے کہ جموں و کشمیر میں پولیس کی جانب سے صحافیوں کی پٹائی ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آئے دن ایسے معاملے خبروں کی زینت بنتی ہیں لیکن انتظامیہ کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔

سنہ 2019 کے اگست مہینے کی پانچ تاریخ سے اب تک درجنوں صحافیوں کو پولیس کی زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس حوالے سے کشمیر کے ایوان صحافت نے بھی گزشتہ برس اپنا بیان جاری کیا تھا۔

مزید پڑھیں: سرینگر میں صحافیوں اور عزاداروں کی پٹائی

8 فروری 2020 کو اؤٹلوک کے نصیر غنائی اور سی این ایس کے ہارون نبی کو جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے بیان پر خبر کرنے کے لیے پولیس کی جانب سے طلب کیا گیا۔
23 دسمبر 2019 کو انڈین ایکسپریس کے بشارت مسعود اور سکرال کے سفوات زرگر کو پولیس نے ہندوارہ میں پوچھ تاچھ کے لیے روکا اور خبر نہ کرنے کی ہدایت دی۔
17 دسمبر 2019 کو نیوز کلک کے انیس زرگر اور دی پرنٹ کے ازاں جاوید کو سرینگر کے رینواری علاقے میں ایک پولیس آفسر کی جانب سے پیٹا گیا۔
30 نومبر 2019 کو اکنامک ٹائمز کے حکیم عرفان اور انڈین ایکسپریس کے بشارت مسعود کو کارگو میں طلب کیا گیا اور خبر کے ذرائع کا انکشاف کرنے کو کہا۔

نومبر کے مہینے میں ہی فوٹو جائو نلست مزمل مطو کو بھی پیٹا گیا تھا۔

گذشتہ برس دسمبر مہینے کی دس تاریخ کو ای ٹی وی بھارت سے منسلکہ فیاض لولو کو ان کے دو ساتھیوں کے ساتھ پیٹا گیا تھا۔ فیاض اس وقت ضلع ترقیاتی انتخابات کی رپورٹنگ کر رہے تھے۔

واضع رہے کہ گذشتہ روز جموں و کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سرینگر کے جہانگیر چوک میں پولیس نے صحافیوں کے ساتھ مارپیٹ کی۔ اس میں کئی صحافیوں کے زخمی ہونے کی خبر سامنے آئی۔

معاملے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے فوٹو جرنلسٹ وسیم اندرابی کا کہنا تھا کہ "ہم اپنا کام کر رہے تھے اور اسی دوران شیرگری تھانے کے ایس ایچ او آفتاب احمد نے ہمارے کام میں رکاوٹ پیدا کی۔ ہم سب پر لاٹھیاں برسائے گئیں۔ ویڈیوز میں سب دکھائی دے رہا ہے۔"

اُن کا مزید کہنا تھا کہ "چوٹ تو سب کو لگی ہے۔ ایک ساتھی کا کیمرہ اور لینس بھی توڑ دیا گیا۔ اس کے لیے کون ذمہ دار ہے؟ اس پولیس آفسر نے ہمیں دھمکی بھی دی کہ ہمارے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے گی۔"

Jk_sri_01_dgp_action_against_cop_dry_7205608
جموں و کشمیر پولیس کا ٹوئٹ

اس معاملے کی جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور دیگر لیڈران نے مذمت بھی کی۔ جہاں پی ڈی پی کی صدر اور جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلی محبوبہ مفتی نے ردعمل ظاہر کرتےہوئے کہا کہ "میڈیا ابھی گھنٹوں افغانستان کے صورتحال اور انسانی المیہ پر بحث کر رہی ہے لیکن کیا وہ کشمیر میں موجود اپنے کمیونٹی کے بارے میں آواز بلند کرے گی کہ آج کن لوگوں کو اپنا کام کرنے کی وجہ سے سکیوریٹی فورسز نے مارا؟"

وہیں، نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کا کہنا تھا کہ "یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ جموں و کشمیر پولیس کے اہلکار بے رحمی سے صحافیوں کی سرینگر میں پٹائی کر رہے ہیں۔ یہ صحافی صرف اپنا کام کر رہے تھے (خبر کی رپورٹنگ)۔ یہ نہ تو خبر بناتے ہیں اور نہ ہی وہ کہانی بنانے کے لیے واقعات کا انعقاد کرتے ہیں۔ میں اُمید کرتا ہوں کی لیفٹیننٹ گورنر ایسے معاملے دوبارہ پیش نہ آئیں، اس کے اقدامات اٹھائے گئے۔"

قبل ذکر ہے کہ جموں و کشمیر میں پولیس کی جانب سے صحافیوں کی پٹائی ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آئے دن ایسے معاملے خبروں کی زینت بنتی ہیں لیکن انتظامیہ کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔

سنہ 2019 کے اگست مہینے کی پانچ تاریخ سے اب تک درجنوں صحافیوں کو پولیس کی زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس حوالے سے کشمیر کے ایوان صحافت نے بھی گزشتہ برس اپنا بیان جاری کیا تھا۔

مزید پڑھیں: سرینگر میں صحافیوں اور عزاداروں کی پٹائی

8 فروری 2020 کو اؤٹلوک کے نصیر غنائی اور سی این ایس کے ہارون نبی کو جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے بیان پر خبر کرنے کے لیے پولیس کی جانب سے طلب کیا گیا۔
23 دسمبر 2019 کو انڈین ایکسپریس کے بشارت مسعود اور سکرال کے سفوات زرگر کو پولیس نے ہندوارہ میں پوچھ تاچھ کے لیے روکا اور خبر نہ کرنے کی ہدایت دی۔
17 دسمبر 2019 کو نیوز کلک کے انیس زرگر اور دی پرنٹ کے ازاں جاوید کو سرینگر کے رینواری علاقے میں ایک پولیس آفسر کی جانب سے پیٹا گیا۔
30 نومبر 2019 کو اکنامک ٹائمز کے حکیم عرفان اور انڈین ایکسپریس کے بشارت مسعود کو کارگو میں طلب کیا گیا اور خبر کے ذرائع کا انکشاف کرنے کو کہا۔

نومبر کے مہینے میں ہی فوٹو جائو نلست مزمل مطو کو بھی پیٹا گیا تھا۔

گذشتہ برس دسمبر مہینے کی دس تاریخ کو ای ٹی وی بھارت سے منسلکہ فیاض لولو کو ان کے دو ساتھیوں کے ساتھ پیٹا گیا تھا۔ فیاض اس وقت ضلع ترقیاتی انتخابات کی رپورٹنگ کر رہے تھے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.