موصوف صدر کی نظر بندی 14 ماہ بعد ماہ اکتوبر کی 2 تاریخ کو ختم کردی گئی تھی۔
مذکورہ انجمن کے ذرائع کے مطابق آغا صاحب گذشتہ کچھ دنوں سے 'ہفتہ وحدت' کے سلسلے میں منعقدہ مجالس میں شرکت کر رہے تھے اور اتوار کے روز انہوں نے ماگام کے یاگی پورہ علاقے میں منعقدہ ایک تقریب میں بھی شرکت کی تھی۔
بتادیں کہ انقلاب ایران کے بانی حضرت امام سید روح اللہ خمینی کے فرمان پر دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ ساتھ وادی کشمیر میں بھی ہر سال ماہ ربیع الاول کی 12 سے 17 ربیع الاول تک 'ہفتہ وحدت' منایا جاتا ہے اور انجمن شرعی شیعیان کی طرف سے اس سلسلے میں وادی بھر میں مجالس و تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
موصوف صدر انجمن نے اپنی نظر بندی کے بارے بات کرتے ہوئے بتایا: 'مجھے پیر کی صبح ایک بار پھر خانہ نظر بند کر دیا گیا میرے مکان کے باہر پولیس گاڑی کو کھڑا کر دیا گیا ہے مجھے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے'۔
انہوں نے کہا کہ نظر بندی کے بارے میں جب میں نے سوال کیا تو مجھے آئی جی پولیس کے ساتھ بات کرنے کو کہا گیا۔
آغا صاحب نے کہا کہ میری سرگرمیاں پر امن اور خالص دینی ہیں اور جن اجتماعات میں، میں گذشتہ چند دنوں سے شرکت کر رہا ہوں ان میں پیغبر اسلام ﷺ کی حیات طیبہ کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالنے کے علاوہ اتحاد امت کے موضوع پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے بلا جواز دوبارہ نظر بند رکھنا نہ صرف غیر آئینی ہے بلکہ مداخلت فی الدین کے بھی مترادف ہے۔
دریں اثنا لوگوں نے آغا صاحب کی دوبارہ نظر بندی پر اظہار برہمی کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ آغا صاحب کی قیادت میں 'ہفتہ وحدت' کے سلسلے میں منعقد ہونے والے اجتماعات متاثر ہوں گے جس سے ملی اتحاد کی ایک مخلص اور مضبوط کوشش کو زک پہنچے گا۔
ایک شہری نے بتایا کہ آغا صاحب کا نہ صرف ضلع بڈگام بلکہ پوری وادی میں اتحاد بین المسلمین کی رسی کو مضبوط کرنے میں بہت بڑا کردار ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہفتہ وحدت کی مناسبت سے آغا صاحب کی قیادت میں منعقدہ مجالس میں مختلف طبقہ ہائے فکر کے علماء و دانشور ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع ہو کر اتحاد ملت کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرتے ہیں۔
انجمن شرعی شیعیان، جو جموں و کشمیر کے شیعہ فرقے کی سب سے بڑی مذہبی تنظیم ہے، کے ایک ترجمان کے مطابق آغا حسن کو گذشتہ سال ماہ اگست کے اوائل میں اس وقت خانہ نظر بند کیا گیا تھا جب جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے علاوہ اس کو دو یونین ٹریٹریز میں منقسم کیا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ تنظیم نے موصوف کی مسلسل خانہ نظر بندی کے حوالے سے جموں و کشمیر ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور جب عدالت نے انتظامیہ سے وضاحت طلب کی تو انتظامیہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ حکومت کی طرف سے آغا صاحب کی خانہ نظر بندی کے حوالے سے پولیس کو کوئی حکم نامہ صادر نہیں کیا گیا ہے اور آغا صاحب خانہ نظر بند نہیں ہیں۔