ETV Bharat / state

Deterioration of Mother Tongues کیا الیکٹرانک آلات کا استعمال مادری زبانوں کی بگڑتی صورتحال کا باعث ہے

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Oct 20, 2023, 4:16 PM IST

قلم کار و شاعر زاہد مختار نے کہاکہ موبائل، انٹرنیٹ و دیگر الیکٹرانک آلات کے بے تحاشا استعمال سے نئی نسل اپنی مادری زبان سے دور ہوتی جا رہی ہے، کیونکہ انٹرنیٹ پر انگریزی کو غلبہ حاصل ہے، جس سے بچوں کی قوت فہم پر اُسی زبان کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

Deterioration of Mother Tongues
کیا الیکٹرانک آلات کا استعمال مادری زبانوں کی بگڑتی صورتحال کا باعث ہے
کیا الیکٹرانک آلات کا استعمال مادری زبانوں کی بگڑتی صورتحال کا باعث ہے

اننت ناگ: دور حاضر میں زبانوں کی بگڑتی صورتحال سماج اور قوم کے لئے باعث تشویش ہے۔ بد قسمتی سے متاثرہ زبانوں میں کشمیری زبان بھی کافی متاثر ہورہی ہے۔ زبان کسی بھی قوم کے لئے نہایت ہی اہمیت کی حامل ہے۔ زبان نہ صرف جذبات کے اظہار خیالات کا ذریعہ ہے، بلکہ قوم کی شناخت بھی زبان سے ہی ہوتی ہے۔ وہیں مادری زبان تعلیم اور ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ کشمیری اور خاص کر اردو زبان بولنے والوں میں یہ بھی غلط فہمیاں ہیں کہ کشمیری اور اردو زبان میں مستقبل نہیں ہے۔
المیہ یہ ہے کہ اب وادی کے لوگ اپنی مادری زبان کو پست سمجھ کر بولنے میں پشیمانی محسوس کرتے ہیں۔ ستم ظرفی یہ ہے کہ بچوں کو مادری زبان کے بجائے غیر زبانیں سکھانے کا ایک کلچر جیسا بن گیا ہے۔ جس کی وجہ سے بیشتر خاندانوں سے کشمیری زبان کو تقریباً خیر آباد کیا گیا ہے۔ وہیں حیرت کی بات یہ ہے کہ یہاں کے سماج میں موجود پڑھے لکھے طبقہ نے بھی اپنی زبان کو صرف بولنے تک ہی محدود رکھا ہے۔ بیشتر لوگ اسے پڑھنے اور لکھنے سے بھی قاصر ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ طلبہ کشمیری یا اردو سبجیکٹ کا انتخاب کرنے میں بھی پشیمانی محسوس کر رہے ہیں۔
ماہر لسانیات اس تناظر میں مختلف رائے رکھتے ہیں، قلم کار و شاعر زاہد مختار کا کہنا ہے کہ موبائل، انٹرنیٹ و دیگر الیکٹرانک آلات کے بے تحاشا استعمال سے نئی نسل اپنی مادری زبان سے دور ہوتی جا رہی ہے، کیونکہ انٹرنیٹ پر انگریزی کو غلبہ حاصل ہے، جس سے بچوں کی قوت فہم پر اُسی زبان کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ان معاملوں پر معروف ادیب قلم کار و شاعر ڈاکٹر نظیر آزاد کا ماننا ہے کہ حقیقی معنوں میں ڈیجیٹلازیشن سے کُتب بینی پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، لیکن دوسری جانب الیکٹرانٹ آلات مادری زبان و ادب کو محفوظ رکھنے کا ایک مفید ذریعہ بھی بن گیا ہے اور ان آلات کے ذریعہ اسے دنیا کے کونے کونے تک رسائی ممکن ہو سکی ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ ہمیں وقت کے ساتھ چلنا ہے، تاہم اپنی زبان اپنے کلچر اپنی ثقافت سے محبت نہیں چھوڑنی چاہئے۔
سرکاری اور نجی سطح پر مادری زبان کے تحفظ کو یقینی بنانے اور اسے فروغ دینے کے لئے کوششیں کی جارہی ہیں، یہی وجہ ہے کہ حکومت کی جانب سے کشمیری سبجیکٹ کو ہر اسکول میں نویں جماعت تک لازمی قرارا دے دیا گیا۔ وہیں اردو اور کشمیری زبان و ادب سے جڑی تنظیمیں اور ادارے اس میں ایک اہم کردار نبھا رہے ہیں۔ جس میں ادبی مرکز کمراز، مراز ادبی سنگم، خاص کر جموں کشمیر اکیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجس شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

اردو اور کشمیری زبان و ادب کو فروغ دینے کے لئے کلچرل اکیڈمی کی جانب سے حال ہی میں ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے، جنوبی کشمیر کے مختلف کالجس میں اردو اور کشمیری مشاعروں کا انعقاد کیا گیا، جس میں نئی نسل کے شعراء کو موقع دیا گیا، تاکہ اسے نئی نسل کے ذریعہ تحفظ فراہم کرنے کے لئے نئی نسل میں منتقل کیا جائے۔
ادیب و قلمکار شاعر علی شیدا نے کہاکہ ان کے اسرار پر کلچرل اکیڈمی کی جانب سے زبان و ادب کو فروغ دینے کے لئے پہل شروع کی گئی ہے اور انہیں امید ہے کہ اس سے مادری زبان و ادب کو فروغ دینے اور تحفظ فراہم کرانے میں کافی مدد ملے گی۔

کیا الیکٹرانک آلات کا استعمال مادری زبانوں کی بگڑتی صورتحال کا باعث ہے

اننت ناگ: دور حاضر میں زبانوں کی بگڑتی صورتحال سماج اور قوم کے لئے باعث تشویش ہے۔ بد قسمتی سے متاثرہ زبانوں میں کشمیری زبان بھی کافی متاثر ہورہی ہے۔ زبان کسی بھی قوم کے لئے نہایت ہی اہمیت کی حامل ہے۔ زبان نہ صرف جذبات کے اظہار خیالات کا ذریعہ ہے، بلکہ قوم کی شناخت بھی زبان سے ہی ہوتی ہے۔ وہیں مادری زبان تعلیم اور ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ کشمیری اور خاص کر اردو زبان بولنے والوں میں یہ بھی غلط فہمیاں ہیں کہ کشمیری اور اردو زبان میں مستقبل نہیں ہے۔
المیہ یہ ہے کہ اب وادی کے لوگ اپنی مادری زبان کو پست سمجھ کر بولنے میں پشیمانی محسوس کرتے ہیں۔ ستم ظرفی یہ ہے کہ بچوں کو مادری زبان کے بجائے غیر زبانیں سکھانے کا ایک کلچر جیسا بن گیا ہے۔ جس کی وجہ سے بیشتر خاندانوں سے کشمیری زبان کو تقریباً خیر آباد کیا گیا ہے۔ وہیں حیرت کی بات یہ ہے کہ یہاں کے سماج میں موجود پڑھے لکھے طبقہ نے بھی اپنی زبان کو صرف بولنے تک ہی محدود رکھا ہے۔ بیشتر لوگ اسے پڑھنے اور لکھنے سے بھی قاصر ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ طلبہ کشمیری یا اردو سبجیکٹ کا انتخاب کرنے میں بھی پشیمانی محسوس کر رہے ہیں۔
ماہر لسانیات اس تناظر میں مختلف رائے رکھتے ہیں، قلم کار و شاعر زاہد مختار کا کہنا ہے کہ موبائل، انٹرنیٹ و دیگر الیکٹرانک آلات کے بے تحاشا استعمال سے نئی نسل اپنی مادری زبان سے دور ہوتی جا رہی ہے، کیونکہ انٹرنیٹ پر انگریزی کو غلبہ حاصل ہے، جس سے بچوں کی قوت فہم پر اُسی زبان کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ان معاملوں پر معروف ادیب قلم کار و شاعر ڈاکٹر نظیر آزاد کا ماننا ہے کہ حقیقی معنوں میں ڈیجیٹلازیشن سے کُتب بینی پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، لیکن دوسری جانب الیکٹرانٹ آلات مادری زبان و ادب کو محفوظ رکھنے کا ایک مفید ذریعہ بھی بن گیا ہے اور ان آلات کے ذریعہ اسے دنیا کے کونے کونے تک رسائی ممکن ہو سکی ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ ہمیں وقت کے ساتھ چلنا ہے، تاہم اپنی زبان اپنے کلچر اپنی ثقافت سے محبت نہیں چھوڑنی چاہئے۔
سرکاری اور نجی سطح پر مادری زبان کے تحفظ کو یقینی بنانے اور اسے فروغ دینے کے لئے کوششیں کی جارہی ہیں، یہی وجہ ہے کہ حکومت کی جانب سے کشمیری سبجیکٹ کو ہر اسکول میں نویں جماعت تک لازمی قرارا دے دیا گیا۔ وہیں اردو اور کشمیری زبان و ادب سے جڑی تنظیمیں اور ادارے اس میں ایک اہم کردار نبھا رہے ہیں۔ جس میں ادبی مرکز کمراز، مراز ادبی سنگم، خاص کر جموں کشمیر اکیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجس شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

اردو اور کشمیری زبان و ادب کو فروغ دینے کے لئے کلچرل اکیڈمی کی جانب سے حال ہی میں ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے، جنوبی کشمیر کے مختلف کالجس میں اردو اور کشمیری مشاعروں کا انعقاد کیا گیا، جس میں نئی نسل کے شعراء کو موقع دیا گیا، تاکہ اسے نئی نسل کے ذریعہ تحفظ فراہم کرنے کے لئے نئی نسل میں منتقل کیا جائے۔
ادیب و قلمکار شاعر علی شیدا نے کہاکہ ان کے اسرار پر کلچرل اکیڈمی کی جانب سے زبان و ادب کو فروغ دینے کے لئے پہل شروع کی گئی ہے اور انہیں امید ہے کہ اس سے مادری زبان و ادب کو فروغ دینے اور تحفظ فراہم کرانے میں کافی مدد ملے گی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.