ETV Bharat / state

چینی صدر کے دورے سے کیا توقعات ہیں؟

چین اور بھارت کے درمیان نازک رشتوں پر خارجہ پالیسی کے ماہر وشنو پرکاش نے روشنی ڈالی ہے۔ ای ٹی وی بھارت کے اس مضمون میں انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان جاری کشیدگی اور سفارتی عمل کو واضح انداز میں بیان کیا ہے۔ وشنو پرکاش، کینیڈا اور جنوبی کوریا میں بھارتی سفیر کے علاوہ وزارت خارجہ کے ترجمان کی حیثیت سے کام کرچکے ہیں اور وہ کونسل جنرل شنگپائی کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔

بھارت اور چین کے درمیان غیررسمی اجلاس سے توقعات وابستہ
author img

By

Published : Oct 4, 2019, 8:21 PM IST

Updated : Oct 9, 2019, 12:42 PM IST

بھارت اور چین کے درمیان دوسرا چوٹی اجلاس 11 تا 13 اکتوبر کو مندروں کے شہر مہابالی پورم میں منعقد ہوگا۔

قبل ازیں 11 تا 13 اگست کو وزیر خارجہ نے اپنے بیجنگ دورہ کے دوران کشمیر مسئلہ پر چین کے رویہ کے بعد بھارت کی ناراضگی سے واقف کروایا تھا جبکہ 5 اگست کو پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد 370 کو منسوخ کیا گیا اور بھارت کا موقف ہے کہ 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر میں ترقی ہوگی۔

ہندوستان نے اپنے موقف میں یہ واضح کیا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ اندرون معاملہ ہے اور اس سے کسی پڑوسی سیاست کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

بھارت اور چین کے درمیان ووہان میں اپریل 2018 کو ہونے والے پہلے غیررسمی اجلاس کی کامیابیوں کو کافی سراہا گیا تھا۔ اس دوران وزیراعظم نریندر مودی اور صدر ژی کی 6 مرتبہ ملاقات ہوئی جس میں باہمی اور عالمی امور پر کھل کر بات کی گئی تھی جبکہ ان ملاقاتوں پر دنیا کی نظر بنی ہوئی تھی۔

اس موقع پر وزیراعظم مودی کا استقبال کرتے ہوئے صدر ژی نے کہا تھا کہ عالمی ترقی کےلیے بھارت اور چین کو اہم ستون کی حیثیت حاصل ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ چین اور بھارت کے درمیان اچھے رشتے کا اثر ساری دنیا میں امن کےلیے مثبت ہوگا۔

اور سربراہی اجلاس کے اختتامی اجلاس کو مشترکہ طور پر خطاب کرتے ہوئے دونوں ممالک کے رہنماؤں نے ترقیاتی شراکت داری کو مستحکم کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور پرامن تبادلہ خیال کے ذریعہ ایک دوسرے کے خدشات کو دور کرتے ہوئے احترام کی فضا کو پیدا کرنے پر زور دیا گیا تھا۔ مشترکہ بیان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے سے تعاون کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا گیا تھا۔

اجلاس کے کچھ دن بعد ہی چین کی رویہ میں تبدیلی آگئی تھی جبکہ 14 فروری 2019 کو ہونے والے پلوامہ حملہ کے بعد اقوام متحدہ کے سیکوریٹی کونسل میں مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دینے کی قرارداد پر اپنے رخ کو تبدیل کرتے ہوئے حمایت کردی تھی۔ اس وقت چین، پاکستان اور مسعود اظہر کو بچانے کی وجہ سے ساری دنیا میں اپنے آپ کو اکیلا محسوس کر رہا تھا۔

ووہان اجلاس کے بعد چین نے پاکستان کی ناراضگی کے باوجود بھارت کے ساتھ ملکر افغانستان میں ترقیاتی منصوبے شروع کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

لیکن پھر ایک بار چین نے بھارتی مفادات کے خلاف پاکستان کی تائید کی جبکہ اس عمل نے نئی دہلی کو مایوس کیا ہے۔ چین نے پاکستان کے کہنے پر اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل میں مسئلہ کشمیر کو اٹھا میں اپنی طاقت جھونک دی تھی۔

اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چین کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ’مسئلہ کشمیر پرانا تنازعہ ہے اور دو طرفہ بات چیت کے ذریعہ اس کا پرامن حل نکالا جانا ضروری ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کی جانب سے ایسی کوئی کاروائی نہیں کی جانی چاہئے جس سے پرامن فضا خراب ہو۔

بھارت نے قبل ازین چین پر یہ واضح کردیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں چین اور پاکستان کی جانب سے بنائی جارہی راہداری غیرمناسب عمل ہے۔

بھارت نے سرحدات کے عنوان پر ستمبر میں ہونے والے 22 ویں اجلاس کو ملتوی کرتے ہوئے چین پر اپنی ناراضگی ظاہر کی جبکہ پیوپلز ریپبلک آف چینا کی 70 ویں سالگرہ کے موقع پر بھارتی وزارت خارجہ کے سکریٹری کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو کیا تھا۔

بھارت نے مختلف مواقعوں پر چین سے اپنی ناراضگی ظاہر کی ہے جسے بیجنگ نے بھی محسوس کیا ہوگا۔

سچ تو یہ ہے کہ چین نے ہمیشہ سے ہی بھارتی مفادات کو نظر انداز کیا ہے۔ بیجنگ نے ہر بار بڑے بڑے دعوے ضرور کئے ہیں لیکن زمینی حقیقت اس کے برعکس رہی ہے۔

اس وقت دونوں ممالک کے درمیان چوٹی اجلاس کی سخت ضرورت ہے۔ جس کے بعد ہی بھارت اور چین ایک دوسرے کے مسائل سے واقف ہوں گے اور مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرسکیں۔

واضح رہے کہ چین میں جاری معاشی سست روی، امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ اور مختلف اندرونی مسائل کی وجہ سے پڑوسی ملک بحران کا شکار ہے۔

بھارت ہمیشہ چین کی جانب سے استعال انگیز کاروائیوں پر صبر کرتے ہوئے تناؤ کو بڑھاوا دینے سے پرہیز کرتا رہا ہے جبکہ سفارتی طور پر اپنی حکمت عملی پر کامیابی کے ساتھ آگے بڑھتا رہا، اس سلسلہ میں ڈوکلام ایک بہترین مثال ہے۔

نئی دہلی نے اس سلسلہ میں ہر اشتعال انگیزی کا جواب بہتر سفارتکاری کے ذریعہ دیتا رہا اور بھارت اپنے موقف پر اٹل ہے۔

وزیراعظم مودی اور صدر ژی کی متعدد موقوع پر ملاقاتیں ہوئی ہیں اور دونوں اعلیٰ رہنما ایک دوسرے کا بہت احترام بھی کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں واضح طور پر کسی بڑے معاہدہ پر اتفاق تو نہیں ہوسکا لیکن دونوں ملکوں کے رشتوں میں کافی بہتری آئی ہے۔

امید کی جارہی ہے کہ اگلے ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات میں مزید بہتری آئے گی اور چین کی جانب سے بھارت کے ساتھ ملکر تجارتی مسائل کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

ہوسکتا ہے کہ ماہابالی پورم کی مقدس زمین پر ہونے والی بات چیت پر بھگوان وشنو کی نظرکرم ہوجائے۔

بھارت اور چین کو ہر مرحلہ پر بات چیت کے دور کو جاری رکھنا چاہئے کیونکہ تنازعات کی یکسوئی کا اس سے بہتر کوئی اور راستہ نہیں ہوسکتا۔ ( وشنو پرکاش)

بھارت اور چین کے درمیان دوسرا چوٹی اجلاس 11 تا 13 اکتوبر کو مندروں کے شہر مہابالی پورم میں منعقد ہوگا۔

قبل ازیں 11 تا 13 اگست کو وزیر خارجہ نے اپنے بیجنگ دورہ کے دوران کشمیر مسئلہ پر چین کے رویہ کے بعد بھارت کی ناراضگی سے واقف کروایا تھا جبکہ 5 اگست کو پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد 370 کو منسوخ کیا گیا اور بھارت کا موقف ہے کہ 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر میں ترقی ہوگی۔

ہندوستان نے اپنے موقف میں یہ واضح کیا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ اندرون معاملہ ہے اور اس سے کسی پڑوسی سیاست کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

بھارت اور چین کے درمیان ووہان میں اپریل 2018 کو ہونے والے پہلے غیررسمی اجلاس کی کامیابیوں کو کافی سراہا گیا تھا۔ اس دوران وزیراعظم نریندر مودی اور صدر ژی کی 6 مرتبہ ملاقات ہوئی جس میں باہمی اور عالمی امور پر کھل کر بات کی گئی تھی جبکہ ان ملاقاتوں پر دنیا کی نظر بنی ہوئی تھی۔

اس موقع پر وزیراعظم مودی کا استقبال کرتے ہوئے صدر ژی نے کہا تھا کہ عالمی ترقی کےلیے بھارت اور چین کو اہم ستون کی حیثیت حاصل ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ چین اور بھارت کے درمیان اچھے رشتے کا اثر ساری دنیا میں امن کےلیے مثبت ہوگا۔

اور سربراہی اجلاس کے اختتامی اجلاس کو مشترکہ طور پر خطاب کرتے ہوئے دونوں ممالک کے رہنماؤں نے ترقیاتی شراکت داری کو مستحکم کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور پرامن تبادلہ خیال کے ذریعہ ایک دوسرے کے خدشات کو دور کرتے ہوئے احترام کی فضا کو پیدا کرنے پر زور دیا گیا تھا۔ مشترکہ بیان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے سے تعاون کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا گیا تھا۔

اجلاس کے کچھ دن بعد ہی چین کی رویہ میں تبدیلی آگئی تھی جبکہ 14 فروری 2019 کو ہونے والے پلوامہ حملہ کے بعد اقوام متحدہ کے سیکوریٹی کونسل میں مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دینے کی قرارداد پر اپنے رخ کو تبدیل کرتے ہوئے حمایت کردی تھی۔ اس وقت چین، پاکستان اور مسعود اظہر کو بچانے کی وجہ سے ساری دنیا میں اپنے آپ کو اکیلا محسوس کر رہا تھا۔

ووہان اجلاس کے بعد چین نے پاکستان کی ناراضگی کے باوجود بھارت کے ساتھ ملکر افغانستان میں ترقیاتی منصوبے شروع کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

لیکن پھر ایک بار چین نے بھارتی مفادات کے خلاف پاکستان کی تائید کی جبکہ اس عمل نے نئی دہلی کو مایوس کیا ہے۔ چین نے پاکستان کے کہنے پر اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل میں مسئلہ کشمیر کو اٹھا میں اپنی طاقت جھونک دی تھی۔

اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چین کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ’مسئلہ کشمیر پرانا تنازعہ ہے اور دو طرفہ بات چیت کے ذریعہ اس کا پرامن حل نکالا جانا ضروری ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کی جانب سے ایسی کوئی کاروائی نہیں کی جانی چاہئے جس سے پرامن فضا خراب ہو۔

بھارت نے قبل ازین چین پر یہ واضح کردیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں چین اور پاکستان کی جانب سے بنائی جارہی راہداری غیرمناسب عمل ہے۔

بھارت نے سرحدات کے عنوان پر ستمبر میں ہونے والے 22 ویں اجلاس کو ملتوی کرتے ہوئے چین پر اپنی ناراضگی ظاہر کی جبکہ پیوپلز ریپبلک آف چینا کی 70 ویں سالگرہ کے موقع پر بھارتی وزارت خارجہ کے سکریٹری کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو کیا تھا۔

بھارت نے مختلف مواقعوں پر چین سے اپنی ناراضگی ظاہر کی ہے جسے بیجنگ نے بھی محسوس کیا ہوگا۔

سچ تو یہ ہے کہ چین نے ہمیشہ سے ہی بھارتی مفادات کو نظر انداز کیا ہے۔ بیجنگ نے ہر بار بڑے بڑے دعوے ضرور کئے ہیں لیکن زمینی حقیقت اس کے برعکس رہی ہے۔

اس وقت دونوں ممالک کے درمیان چوٹی اجلاس کی سخت ضرورت ہے۔ جس کے بعد ہی بھارت اور چین ایک دوسرے کے مسائل سے واقف ہوں گے اور مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرسکیں۔

واضح رہے کہ چین میں جاری معاشی سست روی، امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ اور مختلف اندرونی مسائل کی وجہ سے پڑوسی ملک بحران کا شکار ہے۔

بھارت ہمیشہ چین کی جانب سے استعال انگیز کاروائیوں پر صبر کرتے ہوئے تناؤ کو بڑھاوا دینے سے پرہیز کرتا رہا ہے جبکہ سفارتی طور پر اپنی حکمت عملی پر کامیابی کے ساتھ آگے بڑھتا رہا، اس سلسلہ میں ڈوکلام ایک بہترین مثال ہے۔

نئی دہلی نے اس سلسلہ میں ہر اشتعال انگیزی کا جواب بہتر سفارتکاری کے ذریعہ دیتا رہا اور بھارت اپنے موقف پر اٹل ہے۔

وزیراعظم مودی اور صدر ژی کی متعدد موقوع پر ملاقاتیں ہوئی ہیں اور دونوں اعلیٰ رہنما ایک دوسرے کا بہت احترام بھی کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں واضح طور پر کسی بڑے معاہدہ پر اتفاق تو نہیں ہوسکا لیکن دونوں ملکوں کے رشتوں میں کافی بہتری آئی ہے۔

امید کی جارہی ہے کہ اگلے ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات میں مزید بہتری آئے گی اور چین کی جانب سے بھارت کے ساتھ ملکر تجارتی مسائل کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

ہوسکتا ہے کہ ماہابالی پورم کی مقدس زمین پر ہونے والی بات چیت پر بھگوان وشنو کی نظرکرم ہوجائے۔

بھارت اور چین کو ہر مرحلہ پر بات چیت کے دور کو جاری رکھنا چاہئے کیونکہ تنازعات کی یکسوئی کا اس سے بہتر کوئی اور راستہ نہیں ہوسکتا۔ ( وشنو پرکاش)

Intro:Body:

Ashraf 


Conclusion:
Last Updated : Oct 9, 2019, 12:42 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.