جموں و کشمیر میں زراعت سے وابستہ افراد جو سالہا سال سبزیاں اگانے میں مشغول رہتے ہیں۔ مذکورہ شعبے کے ساتھ جڑے ہوئے لوگوں کو دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کی منسوخی کے بعد کئی طرح کی مشکلات سے دوچار ہونا پڑا کیوںکہ گزشتہ سال کے اگست میں انہوں نے مختلف اقسام کی سبزیاں اگائی تھیں جو کہ صرف فروخت کرنے کے لیے تیار تھیں لیکن کرفیو اور بندشوں کی وجہ سے بازار اور دکانیں بند رہیں۔ سڑکوں پر ٹریفک کی نقل و حمل کئی مہینوں تک معطل رہی جس کی وجہ سے سبزی فروش سبزیوں کو فرخت کرنے میں ناکام رہے۔ نتیجتاً انہیں اپنی محنت خود اپنے ہی ہاتھوں سے ضائع کرنی پڑی۔
وادی میں کئی مقامات پر کسان مشکہ بدج نامی چاول اگانے میں مصروف عمل ہیں جنہیں ابتدائی دور میں کافی منافع ہوا۔ تاہم گزشتہ سال سے کسان کافی مایوس دکھائی دے رہے ہیں کیوںکہ اس شعبے سے وابستہ کسانوں کو وادی میں پُر تناؤ حالات اور ریاست کی خصوصی پوزیشن کی منسوخی کے بیچ مشکہ بدج کی مارکٹ ویلو کم ہو گئی ہے جس کے نتیجے میں کسانوں نے وادی کی اس نایاب چیز کو گھروں میں ہی رکھ دیا ہے جس سے ان میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
ایک برس کے دوران معیشت کو 40 ہزار کروڑ روپے کا نقصان
سیب تیار ہونے کے شروعات کے دوران اس صنعت سے منسلک کاشتکاروں اور تاجروں کو نقصانات سے دوچار ہونا پڑا۔ نامساعد حالات کے دوران مقامی فروٹ منڈیاں بند رہنے اور بیرونی ریاستوں کی منڈیوں تک سیب کی رسائی ممکن نہ ہونے کے سبب اس صنعت سے جڑے افراد تذبذب کا شکار ہوئے۔ حالات کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ تاجر اور میوہ کاشتکاروں نے دفعہ 370 اور آرٹیکل 35 اے کی منسوخی کی ناراضگی کو لے کر احتجاجی طور سیب سے جڑی تمام سرگرمیاں از خود معطل کی تھیں۔
وہیں حالات کا دوسرا پہلو یہ بھی تھا کہ نامعلوم افراد کی طرف سے دھمکی آمیز پوسٹرز کے خوف سے کاشتکاروں نے باغات میں کام کرنا بند کیا تھا۔
دفعہ 370 کی منسوخی کا ایک سال، کشمیر میں حالات کتنے بدلے؟
گزشتہ برس سیب کی صنعت سے جڑی تمام تر سرگرمیاں مفلوج ہو کر رہ گئیں جس کی وجہ سے وادی کے باغات ویران نظر آرہے تھے۔ سیب تیار ہونے کے باوجود لوگ میوہ اتارنے سے گریز کر رہے تھے جس کی وجہ سے یہ میوہ از خود درختوں سے گر کر خراب ہو رہے تھے۔ نامساعد حالات کے دوران اس صنعت کو بچانا حکومت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ اس چیلنج سے مقابلہ کرنے کے لیے جموں و کشمیر انتظامیہ نے مارکٹ انٹر وینشن اسکیم متعارف کی اور نیفڈ کے ذریعہ کاشتکاروں سے براہ راست سیب خریدنے کی شروعات کی گئی جس کے دوران سینکڑوں کاشتکار اپنا اندراج کر کے نیفڈ کو اپنا میوہ فروخت کرنے لگے۔
اب اگرچہ رواں برس کاشتکاروں کو کافی امیدیں تھیں۔ تاہم کورونا کے قہر نے ایک بار پھر اس صنعت سے جڑے افراد کی خوشی چھین لی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران مرکزی علاقے میں ایک بار پھر یہاں کی سیب کی صنعت کو ایسا دھچکا لگا ہے جس سے اُبھرنا محال دکھائی دے رہا ہے۔
لوگ ابھی گزشتہ سال کے نقصان کی بھر پائی نہیں کر پائے تھے کہ اچانک کورونا وائرس کے قہر اور لاک ڑاوُن نے یہاں کے تاجروں اور تجارتی حلقوں سے وابستہ افراد کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ تمام سرگرمیاں بند پڑی ہوئی ہیں۔ غرض لاک ڈاؤن کی مار نے یہاں کے تاجروں اور کاروباری حلقوں کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا ہے اور ابھی دور دور تک اُمید کی کوئی بھی کرن نظر نہیں آرہی ہے۔
واضح رہے کہ سیب کی صنعت یہاں کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تصور کی جاتی ہے۔ وادی میں سیب کی پیداوار 2 ملین میٹرک ٹن کی ہوتی ہے۔
تجارتی انجمنوں کے مطابق دفعہ 370 اور آرٹیکل 35 اے کی منسوخی کے بعد ریاست میں تاجر طبقہ سے وابستہ افراد نہ صرف متاثر ہوئے ہیں بلکہ دور دور تک انہیں ابھی بھی امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی ہے۔ ان حالات سے واپس ابھرنا کافی مشکل ثابت ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جس طرح سے مرکزی سرکار ریاست کی خصوصی پوزیشن کو منسوخ کرنے سے قبل دعویٰ کر رہی تھی کہ جموں و کشمیر کو ترقی کی راہ پر لایا جائے گا۔ انہیں مرکز کے وہ سارے دعوے بے بنیاد اور سراب نظر آرہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ایک جانب جہاں پر مرکزی حکومت تعمیر و ترقی کی بات کیا کرتی تھی۔ وہی دوسری جانب لوگوں کی نقل و حمل پر قدغن عائد کی گئی۔ اگرچہ ایک جانب خراب حالات کی وجہ سے یہاں پورا سال بند رہا تو وہیں دوسری جانب عام لوگوں پر کئی چیزوں کے ساتھ ساتھ مختلف مقامات پر ٹیکس لاگو کیا گیا جس سے مرکز کو فائدہ ہوا جبکہ ریاست کے عوام کسمپُرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
مختلف حلقوں کا کہنا ہے کہ جس طرح سے مرکزی حکومت دعویٰ کر رہی تھی کہ دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد ریاستی عوام کو ترقی اور خوشحالی کی جانب گامزن کیا جائے گا، نوجوانوں کو روزگار کے مواقعے فراہم کیے جائیں گے لیکن ایک سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود ریاست کے حالات بد سے بدتر ہو گئے۔
دراصل آرٹیکل 35 اے اور دفعہ 370 کو نہ صرف ریاست کی سابقہ حکومتوں نے بلکہ مرکزی حکومت نے بھی ایک سیاسی حربے کے بطور استعمال کیا جس سے نہ صرف یہاں کے لوگوں کے دل مجروح ہوئے بلکہ مرکزی حکومت سے بھی اعتبار ختم ہوگیا چونکہ ایک سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد اب جموں و کشمیر کے عوام کے مستقبل کا کیا ہوگا، کس طرح سے یہاں کی معیشت واپس پٹری پر لوٹے گی، یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔