محبوبہ نہ نظربندوں کے معاملے پر تشویش کا اظہار کرنے کیلئے ٹویٹر کا سہارا لیا۔ ایک ٹویٹ میں انہوں نے لکھا :'سرتاج مدنی، نعیم اختر اور ہلال اکبر لون کو غیر قانونی طور پر حراست میں لیے جانے کے اقدام کو دو ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ان کی گرفتاری سے متعلق کوئی حکمنامہ جاری نہیں کیا گیا ہے۔'
سرتاج مدنی، محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی کے سینئر رہنما ہیں جو ماضی میں اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر بھی رہے ہیں۔ وہ رشتے میں محبوبہ کے ماموں بھی ہیں جبکہ نعیم اختر، پارٹی کے سینئر لیڈر اور سابق وزیر ہیں۔ ہلال اکبر لون، بارہمولہ کے پارلیمنٹ ممبر اکبر لون کے فرزند ہیں اور نیشنل کانفرنس تنظیم کے نوجوان لیڈروں میں شمار ہوتے ہیں۔
محبوبہ مفتی نے مزید لکھا کہ 'جب مرکزی حکومت لیجسلیٹرس کو غیر قانونی طور پر حراست میں لے سکتی ہے تو سینکڑوں ایسے کشمیریوں کی حالت زار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو جموں و کشمیر سے باہر کی جیلوں میں بند ہیں۔'
واضح رہے کہ ڈسٹرکٹ ڈیولپمنٹ کونسل کے انتخابات کے ووٹوں کی گنتی سے ایک دن قبل یعنی 21 دسمبر کو پی ڈی پی کے کئی سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لیا گیا تھا۔ ان رہنماؤں میں پی ڈی پی کے سینیئر رہنما سرتاج مدنی، نعیم اختر اور ہلال لون بھی شامل تھے۔ ان تمام رہنماؤں کو ایک سرکاری عمارت میں بند کیا گیا جسے سب جیل قرار دیا گیا ہے۔
وہیں 14 جنوری کو پی ڈی پی کے سینیئر رہنما نعیم اختر کو ایک نجی اسپتال میں داخل کیا گیا تھا جب وہ سب جیل میں بے ہوش ہوگئے تھے۔
حکام نے پی ڈی پی کے ایک اور لیڈر وحید الرحمان پرہ کو بھی حراست میں لیا ہے حالانکہ انہوں نے نظربندی کے دوران ڈی ڈی سی انتخاب بھی جیت لیا ہے۔ انہیں ابھی تک اس عہدے کا حلف لینے کی اجازت بھی نہیں دی گئی ہے۔ حکام کہتے ہیں کہ وحید پرہ، عسکریت پسندوں کے ساتھ روابط میں رہا ہے۔ عدالت نے انہیں گزشتہ ماہ رہا کرنے کے احکامات دئے تھے لیکن پولیس کی خفیہ ایجنسی نے انہیں ایک اور معاملے میں گرفتار کیا۔
محبوبہ مفتی اپنے ٹویٹس میں وحید پرہ کی مبینہ غیر قانونی گرفتاری پر احتجاج کرتی ہیں۔