وقت کے ساتھ ساتھ مقامی طور پر بننے والی آئس کریم کی نہ صرف قیمت بدل گئی ہے بلکہ اسکے ذائقے میں بھی زمین آسمان کا فرق آگیا ہے۔ نتیجے کے طور پر لوگ ریاست کے باہر سے درآمد کی گئی نت نئی اقسام کی آئیس کریم کھانا پسند کرتے ہیں۔ مقامی آئس کریم سازوں کا ماننا ہے کہ ملک کی دیگر ریاستوں کی درآمدات نے انکے کاروبار پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔
لیکن مقامی کارخانہ دار چاہتے ہیں کہ لوگ انکی بنائی ہوئی آئس کریم ہی خریدیں کیونکہ انکے مطابق اس میں استعمال ہونیوالا پانی اور دودھ مقامی اور ذائقہ دار ہوتا ہے۔ انکا دعویٰ ہے کہ کشمیر کا پانی دنیا بھر میں مشہور ہے۔
ایک مقامی صارف نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ بیرون ریاست سے آنے والی آئس کریم ذائقے میں بہتر ہوتی ہے اسلئے لوگ اسے کھانا پسند کرتے ہیں۔
ایک کارخانہ دار نے بتایا کہ مقامی طور تیار کی جانے والی آئس کریم کی ڈیمانڈ بتدریج کم ہوتی جارہی ہے۔انہوں نے اعتراف کیا کہ انکے کارخانون میں تیار ہونے والی آئس کریم کا معیار بہتر نہیں ہے لیکن اگر لوگ پرانے وقت سے رائج آئس کریم کی جانب دوبارہ رجوع کریں تو وہ اسکا معیار بڑھانے کی طرف توجہ دے سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ ایک زمانے میں کشمیر میں ایک روپیہ میں آئس کریم ملتی تھی جسے آرینج آئس کریم کیا جاتا تھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس آئس کریم کی قیمت اب دس گنا بڑھ گئی ہے لیکن ذائقے میں اسی تناسب سے کمی واقع ہوئی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں اب آئس کریم کے کارخانے آہستہ آہستہ بند ہوتے جارہے ہیں۔