در اصل سجاد احمد صوفی نے گذشتہ دس جون کو منعقد کئے گئے عوامی دربار کے دوران کہا تھا کہ انہیں غیر ریاستی افسران پر عوامی شکایتوں کا ازالہ کرنے کی کوئی امید نہیں ہے- اس دربار کی صدارت ایل جی کے مشیر بصیر خان نے کی تھی۔ اور وہاں ضلع افسران کے علاوہ ضلع مجسٹریٹ کرتیکا جئوتسنا بھی موجود تھیں۔ گاندربل کے صفا پورہ علاقے کے رہنے والے سجاد احمد صوفی نے 2020 میں ہوئے ڈی ڈی سی انتخابات میں آزاد امیدوار کے طور حصہ لیا تھا۔ اور وہ نیشنل کانفرنس کے ایک پرانے کارکن تھے۔
مذکورہ دربار میں انہوں اپنے علاقے کے تعمیراتی مسائل مشیر کے سامنے پیش کئے۔ تاہم عوامی دربار کے اختتام پر انہوں نے مشیر سے کہا تھا کہ مشیر پر انہیں اس قدر امید ہے کہ وہ ان کا گریبان بھی پکڑ سکتے ہیں۔تاہم غیر ریاستی افسران سے انہیں کوئی امید نہیں ہے۔ اس بات پر ضلع مجسٹریٹ کرتیکا جئوتسنا مشتعل ہوئیں۔ اور یہی معاملہ سجاد کے قید کا سبب بنی۔
پولیس رپورٹ میں سجاد صوفی سے یہ بات منسوب کی گئی ہے۔ "میں آپ سے امید رکھتا ہوں کیونکہ آپ ایک کشمیری ہیں۔ اور سمجھ سکتے ہیں۔ میں آپ کا گریبان پکڑ سکتا ہوں اور جواب طلب کر سکتا ہوں۔ مگر غیر ریاستی افسران سے کیا امید رکھ سکتا ہوں۔" پولیس نے کارکن کو اپنی من کی بات کہنے پر دفعہ 153 کے تحت مقدمہ درج کرکے ان کو جیل بھیج دیا۔ مذکورہ دفعہ کے مطابق پولیس اس شخص کو گرفتار کر سکتی ہے جس پر یہ الزام عائد ہو کہ ملزم مذہب، نسل، پیدائش، رہائش، زبان وغیرہ کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے مابین دشمنی کو فروغ دینے اور ایسے متعصبانہ کارروائیوں میں ملوث جس سے ہم آہنگی کو خطرہ ہو۔
مقامی عدالت سے ضمانت ملنے کے بعد بھی پولیس نے انہیں رہا نہیں کیا ہے ۔اور یہ خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ سجاد احمد صوفی امن و امان میں رخنہ ڈال سکتے ہیں۔ اسی لئے انہیں ضمانت ملنے کے بعد بھی دوبارہ حراست میں لیا گیا ہے۔ انتظامیہ کی اس کارروائی سے عوامی و سایسی حلقوں نے تنقید کی ہے۔
سماجی کارکن عمر بھٹ نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ جو افراد عوامی مسائل کو انتظامیہ کے سامنے حل کرنے کی غرض سے رکھتے ہیں انکی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے نہ کہ سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جائے۔ سی پی آئی ایم کے لیڈر یوسف تاریگامی نے اس کی مذمت کرتے ہوئے متعلقہ افسر کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ پیوپلز کانفرنس کے صدر سجاد لون کا کہنا ہےکہ یہ واقعہ جمہوریت کے وجود کے کئے ایک بحران ہے۔