وادیٔ کشمیر جسے خبروں کا گڑھ مانا جاتا ہے لیکن مواصلاتی رابطوں پر قدغنوں کے باعث خبریں تلاش کرنا ایک بڑا چیلینج بن گیا ہے۔
انٹرنیٹ اور موبائل فون بند ہونے کے باعث صحافی اپنے ذرائع سے کسی بھی سلسلے میں رابطہ کرنے سے قاصر ہیں۔
سیاسی رہنماؤں اور علیحدگی پسند رہنماؤں کی نظر بندی کے باعث بھی خبریں تلاش کرنے میں دشواریوں کا سامنا ہے۔
ادھر سرکاری افسران بھی کسی موضوع کے تعلق سے معلومات فراہم کرنے سے معذرت ظاہر کر رہے ہیں۔
وادیٔ کشمیر سے تعلق رکھنے والے ظہور اکبر بٹ نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'انہیں خبر تلاش کرنے میں کافی دشواریاں پیش آتی ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ 'خبروں کو تلاش کرنے کا ایک اہم ذریعہ سوشل میڈیا ہے کیونکہ سیاسی رہنما یا سرکاری افسران ٹویٹر اور دیگر سوشل سائٹس کے ذریعے معلومات فراہم کر رہے تھے'۔
صحافی اس معلومات کے ذریعے ہی خبر بنا لیتے تھے چونکہ وادی میں انٹرنیٹ بند ہے تو خبر تلاش کرنا بہت ہی مشکل کام ہوتا جا رہا ہے۔
ظہور اکبر نے کہا کہ 'کشمیر کو خبروں کا گڑھ مانا جاتا ہے لیکن آج کل خبروں کا قحط ہے۔ اگر انٹرنیٹ بحال ہو اور نظر بند سیاسی رہنماؤں کو رہا کیا جائے تو پھر خبریں آسانی سے مل جائیں گی۔'
شاہینہ بانو جو بین الاقوامی ادارہ پریس ٹی وی کے ساتھ منسلک ہیں نے کہا کہ 'انٹرنیٹ اور موبائل فون پر عائد پابندی کے باعث انہیں سرینگر کے علاوہ کسی بھی علاقے کے بارے میں معلومات نہیں ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ 'اسٹوری فائل کرنے میں کافی مشکلات آتی ہیں۔ اگر 6 بجے سے پہلے رپورٹ فائل نہیں کر پائی تو میری خبر یا تو شائع نہیں ہوگی یا اگلے روز اس خبر کو شائع کیا جاتا ہے'۔
اںٹر نیٹ اور موبائل فون پر عائد پابندی کے خلاف چند روز قبل کشمیری صحافیوں نے کشمیر پریس کلب کے احاطے میں احتجاج کیا تھا۔
احتجاج میں حصہ لینے والے صحافی موبائل فون اور انٹرنیٹ خدمات کو فوری طور پر بحال کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
واضح رہے کہ مرکزی حکومت کی طرف سے 5 اگست کو دفعہ 370 اور 35 اے کو ختم کر کے ریاست کو مرکز زیرانتظام دو علاقوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد سرینگر کے ایک نجی ہوٹل میں ایک میڈیا فیسلٹیشن سینٹر قائم کیا گیا جہاں تب سے لے کر اب تک مقامی و غیر مقامی صحافیوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔
میڈیا سینٹر جہاں صحافیوں اور میڈیا کے لیے انٹرنیٹ کنکشن سے لیس 12 کمپیوٹرز اور کالنگ کے لیے موبائل فون دستیاب رکھے گئے ہیں لیکن صبح سے دیر رات تک صحافیوں اور مقامی اخبارات کے ملازمین کو اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔