52 برس کے نذیر احمد قالین باف تھے اور وادی میں نا مسائل حالات کی وجہ سے اپنے کنبے کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنے کے لیے گزشتہ پانچ برس سے حیدرآباد میں ایک قالین کی دکان پر بطور سیلز مین کام کر رہے تھے۔
والد کی بے وقت موت سے شادی کا گھر بنا ماتم کدہ والدہ، بیوی، چار بیٹیاں اور دل کے امراض میں مبتلا بیٹا ان سب کی دیکھ بھال کا ذمہ نذیر احمد کے کندھوں پر ہی تھا۔نذیر احمد کے پڑوسی انہیں ایک خوش اخلاق، زندہ دل اور محنتی انسان کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ان کے پڑوسی عمر احمد نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'رواں مہینے کی 20 تاریخ کو قومی شاہراہ پر خونی نالے( رام بن) کے پاس پیر پھسل جانے کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوئی۔ وہ حیدرآباد سے سرینگر اپنی بیٹی کے نکاح کے لئے آرہے تھے جو شوال کی 19 تاریخ کو ہونی طے تھی۔'ان کا مزید کہنا تھا کہ 'یہاں شب قدر تھی۔ محلے میں سب کو نذیر احمد کی وفات کی خبر ہو چکی تھی۔ تاہم گھر والوں کو یہ اطلاع فراہم کرنے کا صحیح وقت کا اندازہ لگایا جا رہا تھا۔ ان کی لاش یہاں جمعہ کے روز دوپہر کو یہاں پہنچی۔ رامبن سے یہاں آنے میں کم سے کم 36 گھنٹے کا وقت لگا وجہ سڑک مٹی کے تودوں کی وجہ سے کافی جگہ پر بند ہوگئی تھی۔'وہیں نذیر احمد کے فرزند عدنان کا جہاں رو رو کر برا حال ہے، ان کی بیوی صدمے سے نڈھال ہیں اور بیٹیاں خاموش۔بلکتے ہوئے عدنان کا کہنا ہے کہ 'میری میرے والد سے آخری بات اس حادثے سے کچھ روز قبل ہوئی تھی جب وہ میری بڑی بہن کی شادی کے لیے گھر آنے کی ہرممکن کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ بابا اس وقت کورونا وائرس کا ماحول ہے آپ فکر مت کریں سب ٹھیک رہے گا۔ تو ان کا کہنا تھا کہ اپنی ماں بہنوں کا خیال رکھنا۔ میرے بعد ساری ذمہ داری تمہاری ہی ہے۔
بتا دیں کہ نذیر احمد کا انتقال دو روز قبل جموں سرینگر قومی شاہراہ پر خونی نالے کے قریب ہوا۔