سرینگر: اکیسویں صدی کے ابتدائی برسوں کے دوران دو کشمیری گلوکار عرفان نبی اور بلال احمد اپنے نغمے 'زمانے پوکھ نہ ہم دم، توتی کیا گو، تمس گئی زلف برہم، توتی کیا گو' کی وجہ سے کافی مقبول ہوئے۔ اس گلوکار جوڑی کو لوگ عرفان۔بلال کے نام سے جاننے لگے اور ایسا لگتا تھا کہ یہ دو نہیں بلکہ ایک ہی شخص ہے۔ جہاں اکثر لوگوں میں مقبولیت حاصل کرنے کے بعد تکبر اور گھمنڈ آجاتا ہے وہیں عرفان اور بلال ہمیشہ زمین سے جُڑے رہے۔ اُنہوں نے اس وقت موسقی سکھانے کے لیے ایک سینٹر بھی کھولا تاہم وادی کے حالات کے پیش نظر بند کرنا پڑا۔ آج تقریباً 17 برس گزر چکے ہیں اور عرفان۔بلال ابھی بھی ساتھ ہیں اور بچوں کو اپنے نئے ادارے میں موسقی کی تعلیم دے رہے ہیں۔
اس حوالے سے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے عرفان کا کہنا تھا کہ 'بلال اور میں ساتھ تو ہین لیکن ہم نے اس ساتھ کو کوئی رشتہ یا نام نہیں دیا ہے بلکہ ہم عرفان۔بلال ہیں۔ جدو جہد کے دنوں میں ہم کبھی ایک دوسرے کے ماں باپ بنے تو کبھی ساتھی۔ اپنے گھروالوں سے زیادہ پیار ہم کو ایک دوسرے سے ملا ہے۔ Kashmiri Singer Irfan-Bilal
اپنے ادارے کے بارے میں بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ 'سنہ 2020 میں ہم نے یہاں بِمنہ میں مضراب نام سے یہ ادارہ شروع کیا۔ مضراب نام اس لیے رکھا گیا کیونکہ مضراب وہ چیز ہوتی ہے جس سے موسقی کے انسٹرومنٹ بجائے جاتے ہیں۔ یہاں ہم طلباء کو موسقی سکھاتے ہیں۔ Mezrab Kashmiri Music Institute
وہیں بلال بھی عرفان کے خیالات سے اتفاق رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ 'ہمارے ادارے میں فی الحال 120 سے زائد بچے موسیقی سیکھ رہے ہیں۔ ان میں خواتین کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔ دلچسپ بات ہے۔ سب سے چھوٹا طالب علم صرف تین برس کا ہے وہیں سب سے بزرگ 80 برس سے زائد عمر کے ہیں۔ موسیقی کے یہ طلبہ وادی کے طول و عرض سے یہاں موسقی سیکھنے آئے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ 'ہمارا ماننا ہے اور ہم ان بچوں کو بھی زور دے کر یہی سمجھاتے ہیں کہ ٹیلنٹ ہنٹ صرف راستہ آسان کرتا ہے لیکن محنت آپ کو بلندیوں تک پہنچاتی ہے۔ یہاں ہماری توجہ طلباء کو روایتی موسیقی سے روبرو کرنا ہے کیوں کہ اگر آپ اپنی میراث کو اچھی طرح سے سمجھ جائیں گے اور اس کی رکھوالی کریں گے تو منزل آسان ہوتی ہے۔ مغربی ممالک میں بھی روایتی موسقی کی جانب ہی زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔
وہیں موسقی گھرانہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بلال کا کہنا تھا کہ 'ہم پٹیالہ گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور ہماری موسیقی میں بھی اس کی جھلک نظر آتی ہے۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ کشمیر کا اپنا کوئی گھرانہ نہیں ہے اور نہیں کبھی بن سکتا ہے۔ ہمارے پاس صوفی موسیقی ہے جس پر ہم کام کرتے ہیں۔
عرفان۔بلال کے ادارے میں موسیقی سیکھنے آئے طلباء نے بھی مطمئن ہونے کا اظہار کیا اور کہا کہ اُن کو صرف موسیقی نہیں بلکہ تاریخ کے حوالے سے بھی معلومات دی جاتی ہے، جس سے اُن کے علم میں اضافہ ہوتا ہے اور مزہ بھی آتا ہے۔