بدھ کو لاؤے پورہ میں پولیس اور فوج نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے تصادم میں تین عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا ہے، تاہم اس پر تنازعہ برپا ہوگیا جب مہلوکین کے لواحقین نے بتایا کہ یہ تینوں نوجوان عام شہری ہیں اور ان کی عسکریت پسندوں سے کوئی وابستگی نہیں رہی تھی۔
ہلاک شدہ نوجوانوں کی شناخت پلوامہ ضلع کے اعجاز احمد گنائی، اطہر مشتاق وانی اور شوپیان ضلع کے زبیر احمد لون کے بطور ہوئی ہے۔
پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کررہی ہے اور جلد ہی حقیقت سب کے سامنے لائی جائے گی۔
ان تینوں نوجوانوں کی لاشوں کی گاندربل ضلع کے سنہ مرگ علاقے میں تدفین کر دی گئی ہے۔
اعجاز احمد گنائی کے لواحقین نے ایل جی کو ایک مکتوب لکھ کر اپیل کی ہے کہ ان کا بیٹا پلوامہ ڈگری کالج میں گریجویشن کر رہا تھا اور 29 دسمبر کو تعلیم کے سلسلے میں ہی گھر سے نکلا تھا۔
غیر جانبدارانہ تحقیقات کی اپیل ان کا کہنا کہ 30 دسمبر کو مقامی پولیس نے انکے بیٹے کی انکاونٹر میں ہلاک ہونے کی اطلاع دی تھی جس کے بعد وہ پولیس کنٹرول روم سرینگر لاش لینے کے لیے پہنچے لیکن پولیس نے ان کے بیٹے کو عکسریت پسند قرار دیا اور اسکی لاش انکے سپرد نہیں کی۔انہوں نے ایل جی سے گزارش کی ہے ہے کہ انکا بیٹا محض ایک طالب علم تھا اور پولیس ریکارڈ کے مطابق کسی غیر قانونی یا ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث نہیں تھا۔انہوں نے لکھا ہے کہ انکے بیٹے کی ہلاکت ظالمانہ، غیر قانونی، غیر جمہوری اور انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی کے زمرے میں شامل ہے۔ انکا کہنا تھا کہ اگرچہ کشمیر میں حالت ناسازگار ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان حالات کی آڑ میں سیکیورٹی فورسز کسی معصوم کو ظالمانہ انداز میں ہلاک کردے۔انہوں نے ایل جی سے اپیل کی ہے کہ انکے بیٹے کی لاش کو مذہبی رسومات انجام دینے کے لیے انکے سپرد کیا جائے اور غیر جانبدارانہ ٹیم تشکیل دے کر اس پورے واقعے کی تحقیقات کرائی جائے۔