جموں وکشمیر میں حالیہ دنوں کے دوران کورونا وائرس سے متاثرہ کیسز میں کافی حد تک اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے جس کے پیش نظر حکومت نے عید کے موقع پر اجتماعات کو منعقد کرنے پر پابندی عائد کی ہے۔
اگرچہ سرینگر اور دیگر قصبوں و شہروں میں بڑی مساجد، خانقاہیں اور عید گاہ بند رہے تاہم اندرونی علاقوں میں چھوٹی مساجدوں میں احتیاطی تدابیر کو مدنظر رکھتے ہوئے عید الاضحی کی نماز ادا کی گئی۔
یہاں حکومت نے بھی اجتماعت پر روک لگانے کے لیے سرینگر اور دیگر ضلعی ہیڈکواٹرس پہ بندشیں عائد کردی ہے تاکہ کورونا وائرس کے مزید پھیلاؤ پر قابو پایا جاسکے۔
وہیں لوگ بھی عید کو سادگی سے مناتے دیکھے جاسکتے ہیں جس طرح کی گہما گہمی عید کے موقع پر ہوا کرتی تھی وہ کہیں نظر نہیں آرہی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ جب سے جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی درجہ ختم کیا گیا ہے اور اسے دو الگ الگ مرکز کے زیر انتظام علاقے میں تقسیم کیا گیا تب سے یہ ایسی تیسری عید ہے جس میں گزشتہ کئی برسوں کی وہ گہما گہمی اور جوش و خروش نہیں پایا جارہا ہے۔
مسلسل لاک ڈاؤن کی وجہ سے جموں و کشمیر کے لوگ کہیں نہ کہیں اقتصادی بحران کے بھی شکار ہیں جس کا صاف اثر عید الاضحی کی قربانی پر بھی پڑا ہے۔
جس طریقے سے لوگ قربانی کا فریضہ انجام دیا کرتے تھے اس عمل میں کافی کمی اس دفعہ دیکھی جاسکتی ہے۔
یہ بھی بتادیں کہ کچھ روز بعد جموں و کشمیر میں دفعہ 370کی منسوخی کو ایک سال مکمل ہونے والا ہے۔
جس کے تعلق سے حکومت کی جانب سے جشن منانے کی بھی تیاریاں ہورہی ہے تاہم یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ آنے والے چند دنوں کے اندر جموں و کشمیر میں کچھ نئی پیش رفت ہونے والی ہے۔