موجودہ صورتحال سے قبل اگر کسی مریض کو خون کی ضرورت ہوا کرتی تھی تو مریض کا نام اور اس کے فون نمبر اور بلڈ گرپ کے ساتھ فیس بک یا وائٹس ایپ پر شیئر کیا جاتا تھا۔
جس کے بعد وادی کے مختلف علاقوں سے رضاکار ہسپتالوں میں پہنچ کر انسانی ہمددی کے تحت اپنا خون کا عطیہ پیش کرکے قیمتی انسانی جان بچانے میں اپنا اہم کردار ادا کرتے تھے۔
تاہم خون کا عطیہ دینے والے اعجاز بٹ کا کہنا ہے کہ 'ان دنوں انٹرنیٹ اور موبائیل پر مکمل پابندی عائد ہونے کے باعث مریضوں کے ساتھ ساتھ ڈونرز کو کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ، جس کی وجہ سے ڈونر بھی مریضوں کو خون دینے سے قاصر ہیں کیوں کہ انہیں کچھ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب کسے کون سے بلڈ گروپ کی ضرورت ہے کیوں کہ خبروں کی ترسیل کے سارے ذرائع بند ہیں۔
کیمرے کے سامنے آنے سے گریز کرتے ہوئے ایک تیماردار نے کہا کہ چند دن قبل ان کے ایک قریبی رشتہ دار کو خون کی اشد ضرورت پڑی جس کے بعد انہیں ایک شخص کو ہسپتال روانہ کرنا پڑا پھر خون کا عطیہ دینے والا نوجوان دو روز بعد ہسپتال پہنچ پایا تب جا کر مریض کو خون چڑھایا گیا۔ اور اس کی جان بچائی جا سکی۔