واضح رہے کہ 23 فروری 1991 کی رات کو فوج کی 4 راجپوتانہ رائفلز کے اہلکاروں نے آپریشن کے دوران شمالی کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے دو دیہات کنن اور پوش پورہ کو محاصرے میں لیا تھا اور کئی خواتین کے ساتھ اجتماعی طور جنسی زیادتیوں کا ارتکاب کیا تھا۔
بھارتی فوج نے ان الزامات کی تردید کی اور کہا کہ تمام الزامات بے بنیاد تھے لیکن 2013 میں مصنفین افرا بٹ اور نتاشا راتھر سمیت 50 خواتین کے ایک گروپ نے اس معاملے کی تحقیقات کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے درخواست کی۔ اس کے بعد دوبارہ سے تحقیقات کا حکم دیا گیا تھا اور کشمیر ہائی کورٹ نے حکم دیا تھا کہ متاثرین کو معاوضہ ادا کیا جائے۔
کشمیر میں 1991کا سال انتہائی کربناک تھا جب مرکزی حکومت نے عسکریت پسندی کے خلاف ایک سخت گیر مہم شروع کی تھی۔ اس مہم کے دوران، مشتبہ بستیوں میں رات کے دوران محاصرہ کیا جاتا تھا اور مرد و خواتین کو شناختی پریڈ اور گھروں کی تلاشی کے مراحل سے گزارا جاتا تھا۔ کپوارہ ضلع کو عسکریت کا دروازہ یا ’گیٹ وے آف انسرجسی‘ کہا جاتا تھا کیونکہ اس سرحدی ضلع کے راستے ہی ہزاروں عسکریت پسند پاکستانی علاقے سے اسلحہ کی ٹریننگ حاصل کرکے وادی میں داخل ہوئے تھے۔
کنن پوش پورہ میں رات کے دوران محاصرہ اور تلاشی کارروائی بھی اسی عسکریت مخالف مہم کا حصہ تھا۔
سنہ 2016 میں پانچ کشمیری خواتین کارکنان نے اس دردناک سانحہ پر ایک کتاب لکھی جو کنن اور پوش پورہ علاقوں کی خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی روداد پر مبنی ہے۔
یہ کتاب 'کیا آپ کو کنن پوشپورہ یاد ہے؟ 'دہلی میں مقیم زبان پبلشرز نے شائع کی تھی اور کتاب کو جے پور لٹریچر فیسٹیول میں باضابطہ طور پر جاری کیا گیا تھا۔ 228 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں اجتماعی جنسی زیادتی کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں اور اس پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے کہ 'کشمیر میں کس طرح جنسی زیادتی کو جنگ اور شدت پسندی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔'
اس کتاب میں پولیس تفتیش، متاثرہ افراد کے طبی ریکارڈ اور اس معاملے پر سول سوسائٹی کے نظریات کے ریکارڈ موجود ہیں۔
کنن پوش پورہ ساںحہ ایک تلخ حقیقت ہے جو کشمیر کی تاریخ میں ہمیشہ درج رہے گی۔
کنن پوشپورہ واقع انتہائی متنازع رہا ہے۔ پریس کونسل آف انڈیا کے اس وقت کے سربراہ بی جی ورگھیز نے ایک متنازع رپورٹ میں فوج پر لگے الزامات کی تردید کی تھی لیکن کشمیر کے اس وقت کے ڈویژنل کمشنر وجاہت حبیب اللہ نے خواتین کی طرف سے لگائے گئے الزامات کے بارے میں کہا کہ یہ مبالغہ آمیز ہوسکتے ہیں لیکن بعید از حقیقت نہیں ہیں۔
گزشتہ برس کپوارہ کے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر سید محمد یاسین نے بھی کہا تھا کہ انہوں نے واردات کے بعد جب ہر دو دیہات کا دورہ کیا تو متعدد خواتین نے انہیں بتایا کہ مسلح فوجیوں نے انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔