نئی دہلی میں ایک جوتے بنانے والی کمپنی جان مارٹ نے لداخ میں حد متارکہ (ایل او سی) کے مختلف علاقوں کے نام پر جوتے تیار کئے ہیں جو ان دنوں کافی فروخت ہورہے ہیں۔
جوتوں کی اس کمپنی نے اس طرح سے اپنے کاروبار کو مزید فروغ دینے کے لئے ایک جذباتی عنصر ڈال کر لداخ کے مختلف علاقوں کے نام پر جوتے متعارف کرائے ہیں۔
خیال رہے کہ مشرقی لداخ میں بھارت اور چین کے مابین گلوان، پیگونگ اور فنگر 5 مقامات سرحدی رسہ کشی کے حوالے سے خبروں میں رہے ہیں جن کی وجہ سے مذکورہ مقامات کافی معروف ہوگئے لیکن دہلی سے تعلق رکھنے والی جوتوں کی کمپنی نے ان مقامات کو اپنے کاروبار کو بڑھاوا دینے کے لئے استعمال کیا ہے کیونکہ کمپنی نے ان ہی مقامات کے نام سے منسوب سرد جوتے تیار کئے ہیں جو وادی کشمیر میں کافی مقبول ہورہے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل مذکورہ کمپنی کی جانب سے وادی میں بڑے پیمانے پر انگریزی اور اردو اخبارات میں اس سلسلے میں اشتہارات بھی شائع گئے جن میں ان جوتوں کی نمائش کی گئی تھی۔
جوتوں کی اس رینج میں جس "گلوان، ڈوکلام، کرگل، پینگونگ اور پوائنٹ 5 شامل ہیں۔
سرینگر میں واقع جوتوں کی ایک دکان بِگ راجہ فُٹ ویئر کے مالک واصف احمد کا کہنا ہے کہ مارکیٹنگ میں اس طرح کا عنصر ڈال کر جوتوں کی فروخت تیز ہوئی ہے۔
ان کے مطابق برانڈنگ سے خریداروں میں تجسس پیدا ہوتا ہے اور ایسے جوتوں کی جانب توجہ مبذول ہوتی ہے۔
سرینگر کے ایک مقامی شہری کا کہنا ہے 'ایک سال ٹیلی ویژن پر "گلوان" خبروں میں رہا جس میں بھارت اور چین کے درمیان ایک تنازع دیکھنے کو ملا جس کے نتیجے میں متعدد فوجی ہلاک ہوگئے۔ اچانک آپ اسی نام کے جوتوں کو متعارف کریں گے تو ظاہر ہے کہ خرید و فروخت کو بڑھاوا تو ملے گا۔
واضح رہے کہ اس برانڈ نے جنوبی کشمیر کے پلوامہ، کولگام اور اننت ناگ کے علاوہ شمالی کشمیر میں سوپور اور کپواڑہ کے علاوہ خصوصی آؤٹ لیٹس قائم کیے ہیں اور اس طرح سے یہ جوتے کافی مقبول ہورہے ہیں۔
ادھر سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر بھی اس حوالے سے بحث چھڑ گئی ہے اور کئی صارفین اس پر نکتہ چینی کرتے دیکھے جاسکتے ہیں۔