جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ کا ترال علاقہ اپنی منفرد خوبصورتی کی وجہ سے پوری وادی میں مہشور ہے۔ تاہم گزشتہ تیس برس کے دوران یہ علاقہ پرآشوب حالات کی نظر ہوا۔
اس کے نتیجے میں یہ علاقہ تعمیر و ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہا اور یہ علاقہ سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے بھی منفی رجحان کو جنم دے رہا تھا۔ تاہم ڈی ڈی سی انتخابات کا اعلان ہونے کے بعد ہی اس علاقے میں اب کی بار سیاسی سرگرمیاں غیر معمولی حد تک بڑھ گئی ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تین بلاکوں آری پل، ترال اور ڈاڈسرہ کے لیے پچیس امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔
دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ آری پل اور ترال بلاکوں میں نامزد امیدواروں نے اپنی ساری توجہ گجر ووٹوں جن کی تعداد بارہ ہزار کے قریب بتائی جاتی ہے پر مرکوز کی ہوئی ہے لیکن مقامی گجر لوگوں کے مطابق سیاستدان صرف ووٹوں کے وقت ہی یاد کرتے ہیں۔
مقامی گجر عبدالغنی نے بتایا کہ گجر بکروال طبقے کی کو ہر وقت نظر انداز کیا گیا ہے اور اب انتخابات کے موقع پر ان لیڈروں کو گجروں کی یاد آتی ہے۔
تاہم مقامی آزاد امیدوار چودھری رشید کا کہنا ہے کہ 'میاں الطاف جو کہ گجر برادری کے مایہ ناز رہنما ہیں، انہوں نے مجھے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے رضامند کیا ہے اور مجھے امید ہے کہ عوام مجھے خدمت کا موقع دے گی۔'
وہیں لدھو پامپور سے تعلق رکھنے والے چودھری یاسین پوسوال جو ترال اور ڈاڈسرہ سے قسمت آزمائی کر رہے ہیں کا کہنا ہے کہ 'اس نے گجر طبقے کی فلاح و بہبود کے لئے دو ہزار دس سے ہی کام کیا ہے اور اسی لیے وہ الیکشن میں حصہ لینے آیا ہے تاکہ ان کے مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے۔
بی جے پی کی ٹکٹ پر انتخاب لڑنے والے عبدالرشید گجر نے بتایا کہ دیگر پارٹیوں نے گزشتہ ستر برس سے اس طبقے کو ووٹ بینک کے لیے استعمال کیا ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ وہ اپنا امیدوار کو کامیاب کریں۔
ایک اور آزاد امیدوار شکیل احمد نے بتایا کہ گجر طبقے کو نظر انداز کیا گیا ہے اور اسے امید ہے وہ اگر منتخب ہوتے ہیں تو اس برادری کو ترقی کی نئی منزل عطا کرے گا۔
گجر ووٹروں کو لبھانے کے لیے امیدواروں نے وعدے تو کیے اب یہ ووٹر کس کے حق میں ووٹ دیں گے یہ تو بائیس دسمبر کو پتہ چلے گا۔