سی آر پی ایف کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق وادی کشمیر کی موجودہ صورتحال کے دوران پریشانی پیدا کرنے والوں کو احتجاج اور مسلح جدوجہد کی نئی لہر شروع کرنےکا موقع مل سکتا ہے۔ فوجی اہلکار پر حملہ ہونے کا بھی زیادہ خطرہ بن سکتا ہے، کیونکہ وہ عارضی کیمپز میں مقیم ہیں۔
مرکزی حکومت کی جانب سے 5 اگست کو دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد سے سی آر پی ایف کی سات اضافی بٹالین (تقریبا 75000 سکیورٹی اہلکار) کو وادی کشمیر بھیج دیا گیا۔
وادی کشمیر میں مسلسل 130 دن سے بندشیں اور غیر یقینی صورتحال جاری ہے۔
رپورٹ کے مطابق وادی میں موجود سی آر پی ایف اہلکاروں کی بڑی تعداد وہاں فوجیوں کو مطمئن نہیں کر سکتی ہے۔
سی آر پی ایف کا کہنا ہے کہ ' وادی کشمیر میں شدت پسندوں کی دراندازی اور نقل و حرکت میں اضافے کے باوجود اب تک مجموعی طور پر سکیورٹی کی صورتحال میں عسکریت پسندوں کے بڑے حملوں کا مشاہدہ نہیں ہوا ہے۔ وادی میں طویل عرصے سے لاک ڈاؤن احتجاج اور مسلح جدوجہد کی نئی لہر کو دوبارہ شروع ہونے کا موقع فراہم کرسکتا ہے۔'
سی آر پی ایف نے کہا کہ عسکریت پسند وادی کے باہر سے آنے والے کارکنان کو نشانہ بنا کر اور انہیں گولی مار کر لاک ڈاؤن کو طوالت دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔بندش کی وجہ سے لوگ اپنا کاروبار نہیں کر پا رہے ہیں جس سے عوام میں حکومت کے تئیں عدم اطمینان ہے ۔وادی کشمیر میں مسلسل بندشوں کے سبب بین الاقوامی برادری کشمیر میں عائد تمام پانبدیوں کو ختم کرنے اور سیاسی رہنماؤں کو رہا کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔'
سی آر پی ایف نے کہا کہ' وادی کشمیر سے سکیورٹی فورسز کو واپس بلایا جانا فی الحال نظر نہیں آرہا ہے۔اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سی آر پی ایف کو طویل عرصے تک وادی میں قیام پذیررہنا پڑسکتا ہے اس دوران ان کے کیمپز اور قافلے کی نقل و حرکت خطرے سے دوچار رہے گی۔'