اس ضمن میں سرکار نے جموں صوبے میں 50 ہزار اور کشمیر صوبے میں 10 ہزار کنال اراضی کو صنعت اور دیگر نجی اداروں کیلئے واگزار کرنے کی شروعات کی ہے۔
اس دوران جموں و کشمیر میں ضلعی انتظامیہ نے لوگوں کے قبضے سے سرکاری زمین واپس لینے کیلئے کاروائیاں بھی تیز کی ہے۔
گزشتہ روز سرینگر انتظامیہ نے عیدگاہ علاقے میں 23 کنال سرکاری زمین پر ناجائز قبضہ ہٹایا گیا ہے ۔
سرینگر کے ضلعی مجسٹریٹ شاہد اقبال چودھری نے کہا کہ سرکاری زمین پر جو بھی قبضہ کیا گیا ہے اس کو ہٹایا جائے گا اور سرکار اس زمین کو اپنی تحویل میں لے گی۔
پانچ اگست کو جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں منقسم کرنے اور دفعہ 35 اے کے خاتمے کے ساتھ ہی جموں وکشمیر میں مرکزی قوانین کا نفاذ عمل میں لایا گیا۔
دفعہ 35 اے جموں وکشمیر کے باشندوں کے زمین کا تحفظ یقینی بنانے کے علاوہ کسی بھی غیر مقامی فرد کو جموں و کشمیر میں زمین خریدنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔
مرکزی سرکار نے بار بار کہا ہے کہ دفعہ 370 کشمیر میں ترقی کیلیے رکاوٹ تھی اور اب سرکار جموں و کشمیر میں صنعت اور نجکاری کو بڑھاوا دے کر ترقی اور روزگار کے مواقعے فراہم کرے گی۔
پانچ اگست کے بعد کئی نجی اداروں اور بیرونی ریاستوں کے سرکاروں نے جموں و کشمیر میں زمین خریدنے کے ارادے ظاہر کئے ہیں۔
محمکہ صنعت کاری کے ناظم محمود شاہ نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ گزشتہ دو مہینوں سے سرکاری زمین کا انتخاب کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر میں صحت، تعیلم اور انفارمیشن ٹیکنالوجی ادارے تعمیر کرنے کیلئے کئی بیرونی ریاستوں کے نجی اداروں نے یہاں کام کرنے میں دلچسپی دکھائی ہے۔
گزشتہ مہینوں میں سرکار نے ہر ضلع میں سرکاری اراضی کا تخمینہ لگانے کے بعد متعلقہ تحصیلدارو کو اس اراضی کی نشاندھی کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
ای ٹی وی بھارت کو ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ انتظامیہ نے کشمیر کے دس اضلاع میں تقریبا (203,020 ) ایکڑز کی رپورٹ حکومت کو بھیجی گئی ہے جس میں 15000 ایکڑ کی نشاندھی کی جا چکی ہے۔
غور طلب ہے کہ امسال اپریل میں جموں وکشمیر میں 'انویسٹرز سمٹ' منعقد کی جارہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس سمٹ میں بیرونی ریاستوں کے صنعتکار اور نجی اداروں کے مالکان حصہ لے رہے ہیں جس دوران انکو جموں و کشمیر میں سرکاری زمین کی دستیاب ہونے کی جانکاری دی جائے گی تاکہ وہ صنعت اور دیگر تجارتی سرگرمیوں کا آغاز کر سکے۔