جنوبی کشمیر کے سب ضلع ترال میں ڈوگرہ دور کے دوران ایک اسپتال بنایا گیا ہے جس کو نوے کی دہائی میں سب ڈسٹرکٹ اسپتال کا درجہ دیا گیا۔ تاہم حیران کن یہ ہے کہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ نفوس پر مشتمل ترال کی آبادی کے لیے یہ اسپتال ابھی بھی نام بڑے اور درشن چھوٹے کی عملی مثال بنا ہوا ہے۔
عوامی حلقوں کے مطابق سب ضلع اسپتال ترال میں لازمی سہولیات کی عدم دستیابی اور معقول اسٹاف نہ ہونے سے عوام کو دقتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا اور وقتاً فوقتاً عوام کو اپنے بیماروں کو لے کر سرینگر کے اسپتالوں کا رخ کرنا پڑ رہا ہے۔
اسپتال میں جگہ جگہ صفائی کی کمی اور دھول کھائی اور اکھڑی ہوئی دیواروں کی مرمت نہ ہونے سے جہاں اسپتال انتظامیہ کی بے حسی کا اظہار ہوتا ہے وہیں کئی نیم طبی ملازمین عرصہ دراز سے اسپتال میں ڈیرہ جمائے ہوئے ہیں اور نامعلوم وجوہات کی بنا پر ان کا تبادلہ بھی نہیں کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے اسپتال کی حالت بد سے بدتر ہوچکی ہے۔
اسپتال میں فی الوقت مریضوں کے علاج ومعالجے کے لیے کچھ اسٹاف موجود ہے۔ تاہم عوامی حلقوں کا ماننا ہے کہ سب ڈسٹرکٹ کا سائن بورڈ لگانے سے اسپتال کا نظام ٹھیک نہیں ہو سکتا ہے بلکہ اس کے لیے سب ڈسٹرکٹ معیار کے مطابق طبی اور نیم طبی عملے کی فراہمی اور لازمی مشینری فراہم کرانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ تاہم ایسا نہیں کیا جا رہا ہے جس کا خمیازہ ترال کے غریب عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
کارمولہ سے آئے ایک گُجر نے بتایا کہ سب ڈسٹرکٹ اسپتال میں طبی سہولیات سے عوام کو زبردست مشکلات درپیش ہیں اور یہاں تعینات عملہ بیماروں کی دیکھ بھال اچھے ڈھنگ سے نہیں کر تا ہے۔
آری پل کے ایک تیماردار فیاض احمد میر نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے بتایا کہ سب ڈسٹرکٹ اسپتال ترال میں جو سہولیات دستیاب ہونی چاہیے وہ موجود نہیں ہیں اگرچہ اسپتال کا عملہ یہاں مختلف قسم کے آپریشن بھی عمل میں لاتا ہے لیکن بلڈ بینک کی عدم موجودگی کی وجہ سے کبھی تو یہاں آپریشن کرنے والے مریضوں کو آخری لمحات میں سرینگر منتقل کیا جاتا ہے جو کہ بہت ہی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ یہ اسپتال تو صرف نام کا رہ گیا ہے یہاں کوئی سہولیات دستیاب نہیں ہیں، الٹا بیماروں کو اکثر اوقات سرینگر ریفر کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے غریب لوگ پریشان ہو جاتے ہیں۔
ایک سابق بیوروکریٹ بشیر احمد جان نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ اس اسپتال کا درجہ بڑھایا دیا گیا ہے لیکن اسٹاف یہاں پرانے کاغذات کے مطابق ہی مامور ہیں جبکہ اسپتال میں ضروری مشینری کی کمی نے اسپتال کے نظام کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ ترال کے واحد بڑے اسپتال میں ضروری سہولیات کی عدم دستیابی سے عوام پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اخروٹ کے درختوں سے گر کر اکثر لوگ آرتھو پیڈک ڈاکٹر کے نہ ہونے کی وجہ سے سرینگر کے اسپتالوں میں ریفر کر دیے جاتے ہیں جبکہ ایک میٹرنیٹی اسپتال کی مانگ بھی عرصہ دراز سے کی جا رہی ہے۔ تاہم ترال علاقے کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک روا رکھا گیا ہے۔ لرگام کے ایک مقامی شہری غلام نبی مرزا نے بتایا کہ نائٹ ڈیوٹی کے دوران اکثر سپشلیسٹ ڈاکٹر کے نہ ہونے سے بیماروں کو سخت مشکلات کا سامنا ہوتا ہے جبکہ اسپتال میں بلڈ بنک کے لیے خریدا گیا سامان زنگ آلود ہو چکا ہے۔
ایڈشنل ڈپٹی کمشنر ترال شبیر احمد رینہ نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ سب ضلع اسپتال ترال میں ایس ڈی ایچ قواعد و ضوابط کے تحت اسٹاف موجود نہیں ہیں جس کی وجہ سے عوامی توقعات پر بھی مکمل طور عمل درآمد نہیں ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تاہم موجود اسپتال عملہ دیانتداری کے ساتھ کام کر رہا ہے اور اسپتال میں طبی اور نیم طبی عملے کی کمی کے ساتھ ساتھ ضروری مشینری کو مہیا رکھنے کے لیے انتظامیہ نے پہلے ہی ایک فائل محکمہ کو بھیج رکھی ہے اور انھیں امید ہے کہ جلد ہی یہاں معقول اسٹاف کو تعینات کیا جائے۔
عوامی الزامات اور سرکاری دعووں کے بیچ اب بس اسی کا انتظار ہے کہ آخر کب سب ڈسٹرکٹ اسپتال ترال واقعی سب ڈسٹرکٹ اسپتال بنتا ہے۔