ETV Bharat / state

Himachal Muslim Population ہماچل کی تاریخ میں ایک بھی مسلم چہرہ اب تک ایوان نہیں پہنچا - ہماچل پردیش میں مسلمانوں کی حالت

ہماچل سے متعلق ایک ریکارڈ درج ہے جہاں سنہ 1971 میں ریاست کی تشکیل کے بعد سے آج تک کوئی بھی مسلم رکن اسمبلی منتخب نہیں ہوا ہے۔ حالانکہ ہماچل میں بھی مسلمانوں کی آبادی ہے، تو آخر ہماچل میں ایسا کیوں ہے؟ Himachal Pradesh Himachal Assembly Election 2022

Till now no Muslim MLA has been elected in Himachal Muslim population in Himachal Pradesh Himachal Assembly Election 2022
ہماچل کی تاریخ میں ایک بھی مسلم چہرہ اب تک ایوان نہیں پہنچا
author img

By

Published : Nov 8, 2022, 11:42 AM IST

شملہ: ریاست ہماچل پردیش میں 12 نومبر کو 68 سیٹوں کے لیے ووٹ ڈالے جائیں گے اور 8 دسمبر کو نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔ ہماچل سے متعلق ایک ریکارڈ بھی درج ہے۔ جہاں سنہ 1971 میں ریاست کی تشکیل کے بعد سے آج تک ہماچل میں کوئی بھی مسلم رکن اسمبلی منتخب نہیں ہوا ہے۔ حالانکہ ہماچل میں بھی مسلمانوں کی آبادی ہے، تو یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ دوسری طرف سکھوں کی آبادی مسلمانوں سے کم ہے، لیکن سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے کئی چہرے ہماچل اسمبلی پہنچ چکے ہیں۔ No Muslim MLA Elected in Himachal Pradesh

ہماچل میں مسلمانوں کی آبادی: سنہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق ہماچل کی کل آبادی 68 لاکھ سے زیادہ ہے۔ اس میں مسلمانوں کی آبادی 2.1% ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ریاست میں مسلمانوں کی آبادی ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہے جو چمبہ، سرمور، منڈی، بلاس پور، سرمور اور بالائی شملہ کے علاقوں میں رہتی ہے۔

آج تک مسلم ایم ایل اے کیوں نہیں بنے: ہماچل میں مسلمانوں کی آبادی 1.5 لاکھ کے قریب ہے، لیکن یہ آبادی ریاست کے کئی حصوں میں بکھری ہوئی ہے۔ مسلمانوں کی آبادی کسی ایک جگہ اتنی کم ہے کہ وہ اپنا نمائندہ منتخب نہیں کر سکتے۔ یہی سب سے بڑی وجہ ہوسکتی ہے کہ آج تک کوئی بھی مسلم ایم ایل اے منتخب نہیں ہوا۔ ہماچل میں مسلمان نہ تو کسی لوک سبھا حلقے میں اور نہ ہی کسی اسمبلی حلقے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم نمائندہ نہ تو اسمبلی میں پہنچ سکا ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ۔

مسلم آبادی کے بکھرنے کے ساتھ ساتھ ہماچل کی سیاست میں کوئی بڑا مسلم چہرہ اب تک ابھر نہیں سکا ہے، اسی وجہ سے آج تک کسی سیاسی پارٹی نے کسی مسلم چہرے کو ٹکٹ نہیں دیا۔ اس بار بھی صرف دو مسلم امیدواروں نے آزاد امیدوار کے طور پر اپنے کاغذات نامزدگی داخل کیے جن میں سے ایک امیدوار نے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے۔ اب آزاد امیدوار رمضان ضلع سرمور کے ناہن اسمبلی حلقہ سے واحد مسلم امیدوار ہیں۔

ہماچل میں سکھ ایم ایل اے اور وزیر: ہماچل میں سکھوں کی آبادی، ریاست کی آبادی کے لحاظ سے مسلمانوں سے کم ہے، لیکن اب تک دو سکھ چہرے ہماچل اسمبلی میں پہنچ چکے ہیں۔ ان میں سے ایک سکھ چہرہ ہماچل کابینہ کا حصہ بھی رہا ہے۔ ہماچل میں سکھوں کی آبادی تقریباً 1.6% ہے جو کہ مسلمانوں کی آبادی سے کم ہے۔ ریاست میں سکھوں کی آبادی تقریباً 90 ہزار ہے، لیکن اس وقت پرمجیت سنگھ پمی سولن کی دون اسمبلی سے بی جے پی کے ایم ایل اے ہیں۔ اس سے پہلے ہرینارائن سینی نالہ گڑھ سے ایم ایل اے اور وزیر رہ چکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں سکھ چہرے بی جے پی کے ٹکٹ پر اسمبلی پہنچے ہیں۔ فی الحال ہردیپ سنگھ باوا نالہ گڑھ سے کانگریس کے امیدوار ہیں۔

دراصل سنہ 1966 میں پنجاب کی تنظیم نو کے بعد ہریانہ کو پنجاب سے الگ کر دیا گیا، جب کہ کچھ علاقے ہماچل میں شامل کیے گئے۔ ان علاقوں میں سکھ آبادی بھی رہتی ہے۔ سکھوں کی آبادی مسلمانوں کی آبادی سے کم ہو سکتی ہے، لیکن ان کی آبادی ریاست کے سرمور ضلع کے پاونٹا صاحب، اونا، کانگڑا اور سولن اضلاع میں رہتی ہے۔

ہماچل کی آبادی: سنہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق، ہماچل میں 50 فیصد سے زیادہ آبادی اونچی ذات کی ہے۔ راجپوت 32.72 فیصد اور برہمن 18 فیصد ہیں، اس کے علاوہ درج فہرست ذات کی آبادی 25.22 فیصد اور درج فہرست قبائل کی آبادی 5.71 فیصد ہے۔ ریاست میں او بی سی 13.52 فیصد اور اقلیتیں 4.83 فیصد ہیں۔ اقلیتوں میں مسلمانوں کی آبادی 2.1% ہے۔

مزید پڑھیں:

شملہ: ریاست ہماچل پردیش میں 12 نومبر کو 68 سیٹوں کے لیے ووٹ ڈالے جائیں گے اور 8 دسمبر کو نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔ ہماچل سے متعلق ایک ریکارڈ بھی درج ہے۔ جہاں سنہ 1971 میں ریاست کی تشکیل کے بعد سے آج تک ہماچل میں کوئی بھی مسلم رکن اسمبلی منتخب نہیں ہوا ہے۔ حالانکہ ہماچل میں بھی مسلمانوں کی آبادی ہے، تو یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ دوسری طرف سکھوں کی آبادی مسلمانوں سے کم ہے، لیکن سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے کئی چہرے ہماچل اسمبلی پہنچ چکے ہیں۔ No Muslim MLA Elected in Himachal Pradesh

ہماچل میں مسلمانوں کی آبادی: سنہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق ہماچل کی کل آبادی 68 لاکھ سے زیادہ ہے۔ اس میں مسلمانوں کی آبادی 2.1% ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ریاست میں مسلمانوں کی آبادی ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہے جو چمبہ، سرمور، منڈی، بلاس پور، سرمور اور بالائی شملہ کے علاقوں میں رہتی ہے۔

آج تک مسلم ایم ایل اے کیوں نہیں بنے: ہماچل میں مسلمانوں کی آبادی 1.5 لاکھ کے قریب ہے، لیکن یہ آبادی ریاست کے کئی حصوں میں بکھری ہوئی ہے۔ مسلمانوں کی آبادی کسی ایک جگہ اتنی کم ہے کہ وہ اپنا نمائندہ منتخب نہیں کر سکتے۔ یہی سب سے بڑی وجہ ہوسکتی ہے کہ آج تک کوئی بھی مسلم ایم ایل اے منتخب نہیں ہوا۔ ہماچل میں مسلمان نہ تو کسی لوک سبھا حلقے میں اور نہ ہی کسی اسمبلی حلقے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم نمائندہ نہ تو اسمبلی میں پہنچ سکا ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ۔

مسلم آبادی کے بکھرنے کے ساتھ ساتھ ہماچل کی سیاست میں کوئی بڑا مسلم چہرہ اب تک ابھر نہیں سکا ہے، اسی وجہ سے آج تک کسی سیاسی پارٹی نے کسی مسلم چہرے کو ٹکٹ نہیں دیا۔ اس بار بھی صرف دو مسلم امیدواروں نے آزاد امیدوار کے طور پر اپنے کاغذات نامزدگی داخل کیے جن میں سے ایک امیدوار نے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے۔ اب آزاد امیدوار رمضان ضلع سرمور کے ناہن اسمبلی حلقہ سے واحد مسلم امیدوار ہیں۔

ہماچل میں سکھ ایم ایل اے اور وزیر: ہماچل میں سکھوں کی آبادی، ریاست کی آبادی کے لحاظ سے مسلمانوں سے کم ہے، لیکن اب تک دو سکھ چہرے ہماچل اسمبلی میں پہنچ چکے ہیں۔ ان میں سے ایک سکھ چہرہ ہماچل کابینہ کا حصہ بھی رہا ہے۔ ہماچل میں سکھوں کی آبادی تقریباً 1.6% ہے جو کہ مسلمانوں کی آبادی سے کم ہے۔ ریاست میں سکھوں کی آبادی تقریباً 90 ہزار ہے، لیکن اس وقت پرمجیت سنگھ پمی سولن کی دون اسمبلی سے بی جے پی کے ایم ایل اے ہیں۔ اس سے پہلے ہرینارائن سینی نالہ گڑھ سے ایم ایل اے اور وزیر رہ چکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں سکھ چہرے بی جے پی کے ٹکٹ پر اسمبلی پہنچے ہیں۔ فی الحال ہردیپ سنگھ باوا نالہ گڑھ سے کانگریس کے امیدوار ہیں۔

دراصل سنہ 1966 میں پنجاب کی تنظیم نو کے بعد ہریانہ کو پنجاب سے الگ کر دیا گیا، جب کہ کچھ علاقے ہماچل میں شامل کیے گئے۔ ان علاقوں میں سکھ آبادی بھی رہتی ہے۔ سکھوں کی آبادی مسلمانوں کی آبادی سے کم ہو سکتی ہے، لیکن ان کی آبادی ریاست کے سرمور ضلع کے پاونٹا صاحب، اونا، کانگڑا اور سولن اضلاع میں رہتی ہے۔

ہماچل کی آبادی: سنہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق، ہماچل میں 50 فیصد سے زیادہ آبادی اونچی ذات کی ہے۔ راجپوت 32.72 فیصد اور برہمن 18 فیصد ہیں، اس کے علاوہ درج فہرست ذات کی آبادی 25.22 فیصد اور درج فہرست قبائل کی آبادی 5.71 فیصد ہے۔ ریاست میں او بی سی 13.52 فیصد اور اقلیتیں 4.83 فیصد ہیں۔ اقلیتوں میں مسلمانوں کی آبادی 2.1% ہے۔

مزید پڑھیں:

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.