تقریباً دو دہائی قبل اس ٹنل کا منصوبہ پیش کیا گیا تھا اس ٹنل کا سب سے زیادہ فائدہ لداخ میں تعینات بھارتی افواج کو ملے گا کیونکہ اس ٹنل کی وجہ سے اب سردیوں کے موسم میں بھی فوج کو آسانی سے رسد و خوراک فراہم کی جاسکے گی۔
اس ٹنل کے سبب ٹرائیبل ٹورزم، ایڈوینچر ٹورزم کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کو کافی فائدہ پہنچے گا اور ہماچل کا مشہور سیاحتی مقامی منالی پورے بھارت کے بہترین سیاحتی مقام کے طور پر ابھرے گا۔
موجودہ وقت میں ہماچل کی جی ڈی پی میں سیاحت کا حصہ 6.9 فیصدی ہے۔ اس کے علاوہ چھ ماہ تک دنیا سے کٹی رہنے والی لاہول وادی میں اب پورا سال آمد و رفت جاری رہے گی۔
لاہول وادی کے آلو اور دیگر سامان اب آسانی سے بازاروں تک پہنچ سکیں گے، اسی کے ساتھ ہی کلو اور اطراف کے لوگ اکثر روزگار کے لیے دوسرے علاقے منتقل ہوجایا کرتے تھے لیکن اب اس میں بھی کمی آئے گی۔
سیاحت کے تعلق سے ہماچل حکومت ہر برس تقریباً دو کروڑ سیاحوں کی آمد کی توقع رکھتی ہے، اگر گزشتہ پانچ برسوں کے ریکارڈ پر نظر ڈالی جائے تو ہماچل میں ہر برس تقریباً پونے دو کروڑ سیاحوں کی آمد ہوتی ہے۔
لیکن اب لاہول وادی میں سال بھر آمد ورفت ہونے کے سبب سیاحوں کی تعداد میں حیران کن اضافہ ہونے کی امید ظاہر کی جارہی ہے۔
اسی کے ساتھ ہی اس ٹنل کے بننے سے تقریباً 46 کلو میٹر کا سفر کم ہوجائے گا اور منالی سے ضلع کیلنگ کی دوری صرف 70 کلو میٹر ہی رہ جائے گی۔
لاہول وادی میں سیاحت کی طرف راغب کرنے والے کئی مقامات ہیں، یہاں شاسور گومپا، ڈِرلپوری گومپا، تری لوک ناتھ مندر اور مُکولا مندر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ چندرا وادی پٹٹن وادی، گاہر وادی و جِسپا کی قدرتی خوبصورتی قابل دید ہیں۔