میوات کے معروف عالمی دین مفتی زاہد حسین نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں اس میں یہ تشویش کی بات نظر آتی ہے کہ پانچ لوگ ہی نماز مسجد میں ادا کریں۔ اس کی تطبیق کچھ اس طرح دی جا سکتی ہے کہ ایک وقت میں پانچ افراد ہی مسجد میں نماز ادا کریں پھر اس کے بعد مزید لوگ آئیں اور نماز ادا کرتے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ اس عالمی وبا کے دوران ہمیں ہر حال میں محکمہ صحت صوبائی حکومت اور مرکزی حکومت کی ہدایات پر عمل پیرا ہونا ہے۔
جامعہ صدیقہ نوح کے ناظم مفتی تعریف سلیم نے کہا کہ حکومت کے فیصلے کا خیر مقدم ہے اسلئے کہ دو مہینے سے زیادہ مساجد کو بند رکھنے کے بعد کھولنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن جن علاقوں میں میں کورونا وائرس کافی حد تک ختم ہو چکا ہے ان علاقوں میں مساجد میں نمازیوں کی تعداد کے تعین کو بھی ختم کردیا جانا چاہیئے۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح بازاروں میں سماجی دوری کے ساتھ لوگوں کی تعداد پر کوئی لگام نہیں ہے ویسے ہی مساجد میں بھی سماجی دوری کے ساتھ نمازیوں کی تعداد پر کوئی قید نہیں ہونی چاہیے۔
مدرسہ اشاعت العلوم کھرکڑی کے بانی اور جمعیت علماء کے ہریانہ پنجاب چنڈی گڑھ ہماچل کے نائب صدر مولانا حکیم الدین اشرف اٹاوڑی نے کہا کہ جس طرح بازاروں میں تعداد پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے اسی طرح مذہبی عبادت گاہوں چاہے وہ مندر ہوں مساجد ہوں چرچ یا گرودوارے ہوں سبھی کو کھول دینا چاہیے۔ یا پھر اگر کورونا وائرس کے کیسز مسلسل بڑھ رہے ہیں تو پھر حکومت کو لاک ڈاؤن کھولنا ہی نہیں تھا۔